جہادی تحریکوں کے مقابلے میں داعش کا انتہا پسندانہ مؤقف | پہلی قسط

عبود بلخی

داعش عالمی جہادی تحریکوں کے مقابلے میں باطل اور انتہا پسند مؤقف رکھتی ہے اور زیادہ تر جہادی تحریکوں کو اسلام سے منحرف اور کفار کے دوست و حامی قرار دیتی ہے؛ یہ لوگ امارت اسلامی، جبهة النصرہ، القاعدہ، حماس، الشباب، انصار الاسلام اور تحریک طالبان پاکستان کے خلاف اپنے انتہا پسند عقیدے کی بنیاد پر جنگ کو جائز سمجھتے ہیں اور ان مجاہدین کے قتل کو درست قرار دیتے ہیں۔

ہم یہاں داعشی خوارج کے ان دعوؤں کو مختصر طور پر بیان کریں گے جن کی بنیاد پر وہ مجاہدین کے خلاف جنگ میں ملوث ہیں۔

۱۔ امارتِ اسلامی کے خلاف داعش کا مؤقف:

داعش کے مطابق امارت اسلامی، افغانستان میں ایک قومی حکومت بنانے پر زور دیتی ہے اور داعش کے نام نہاد دہشت وبربریت پر مبنی عالمی خلافت کے تصور کو مسترد کرتی ہے۔ اسی وجہ سے داعش کے ہاں امارت اسلامی کے خلاف جنگ کرنا ضروری ہے اور یہ ان کی ذمہ داری ہے۔

جبکہ اسلامی امارت نے ابتدائی سالوں میں فساد اور برائی کے خلاف اخلاص کے ساتھ بھرپور جنگ لڑی، اپنے ملک کو تقسیم سے بچایا، ظلم و جبر کا خاتمہ کیا، امن قائم کیا اور ایک مکمل اسلامی نظام قائم کیا۔ اس کے بعد امارت اسلامی نے مغربی حملہ آوروں کے خلاف بیس سال تک جهاد کرنے کے بعد کامیاب ہوکر افغانستان میں ایک بار پھر اسلامی نظام نافذ کرکے امن وامن کی فضا قائم کرنے میں کامیاب ہوئی۔

٢۔ القاعدہ کے خلاف داعش کا مؤقف:

داعش اپنی تنظیم کو ہی ایک اسلامی خلافت مانتی ہے اور دعویٰ کرتی ہے کہ تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ان کے ہاتھ پر بیعت کریں۔ داعش القاعدہ کو اس لیے تنقید کا نشانہ بناتی ہے کہ وہ خلافت کے قیام کے اصل مقصد سے وفادار نہیں ہیں اور صرف محدود علاقوں میں سرگرم ہیں، جبکہ داعش عالمی خلافت کے قیام پر زور دیتی ہے۔

داعش کے مطابق، القاعدہ کی پالیسی "نرمی” پر مبنی ہے اور انہیں تنقید کا نشانہ بناتی ہے کہ وہ کفریہ ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرتے ہیں اور سیاسی و طویل مدتی جنگ پر یقین رکھتے ہیں۔ القاعدہ عام مسلمانوں کی حمایت کو اہمیت دیتی ہے، جبکہ داعش کا ماننا ہے کہ صرف تشدد اور عسکری جنگ کو ترجیح دی جانی چاہیے، اس بات کا خیال رکھے بغیر کہ عام مسلمانوں کی حمایت حاصل ہو یا نہ ہو۔

اس کے برعکس، القاعدہ عالمی جہاد کے لیے مسلمانوں کو بیدار کرنے اور کفریہ طاقتوں سے اسلامی سرزمینوں کا دفاع کرنے کے لیے ایک اہم تحریک کے طور پر ثابت ہوئی ہے۔

۳۔ جبهة النصرہ یا تحریر الشام کے خلاف داعش کا مؤقف:

جبهة النصرہ جو کہ اصل میں القاعدہ کی ایک شاخ تھی، وہ شام میں مقامی گروپوں اور لوگوں کے ساتھ مل کر جہاد کرنے کو ترجیح دیتی ہے اور شام کی جنگ کو اپنے مقامی جهاد کے طور پر مانتی ہے۔ داعش اس کو عالمی خلافت کے خلاف ایک انٹیلیجنس منصوبہ سمجھتی ہے اور ان کے نزدیک جبهة النصرہ کا مقامی لوگوں کی حمایت کو اہمیت دینا ایک غلط اقدام ہے۔

داعش کا مؤقف یہ ہے کہ وہ عام مسلمانوں کی حمایت کو اہمیت نہیں دیتی اور اس کے بجائے تشدد اور سخت مؤقف پر زور دیتی ہے۔ جبهة النصرہ یا تحریر الشام کو داعش "نرمی” اختیار کرنے والوں کے طور پر دیکھتی ہے، ان کے سیاسی اقدامات اور مقامی معاہدوں کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے اور ان کے خلاف جنگ کو جهاد سمجھتی ہے۔

اس کے باوجود، تحریر الشام نے اپنے علاقے کی آزادی اور اسلامی نظام کے قیام کے لیے کی گئی کوششوں میں اکثر جہادی تحریکوں کے مقابلے میں بہتر ثابت ہوئی ہے۔

Author

Exit mobile version