تمام علاقوں اور شہروں میں حکومت کے خلاف بغاوتیں ہو رہی تھیں۔ سلطان محمد فاتح یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے اپنی پوری قوت لگا دی تاکہ بازنطینی سلطنت کے دارالحکومت قسطنطنیہ پر قبضہ کر کے فتح کا تاج اپنے سر پر سجا سکیں اور عالمِ اسلام کی دشمن صلیبی تحریکوں کے ایک اہم مرکز کو ختم کر دیں جو طویل عرصے سے اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف تھا۔
اسی طرح، عمومی طور پر تمام عیسائیت اور خاص طور پر بازنطینی سلطنت کو زیر کرنے کے بعد، محمد اس شہر کو عثمانی سلطنت کا دارالحکومت بنانا چاہتے تھے اور اپنے ان خوابوں کی تعبیر حاصل کرنا چاہتے تھے جنہیں ان کے پیشرو اور اسلامی لشکروں کے سپہ سالار پورا کرنے میں ناکام رہے تھے۔
قسطنطنیہ کی فتح
قسطنطنیہ دنیا کے بہترین شہروں میں سے ایک تھا۔ اس کی بنیاد (330ھ) میں بازنطینی شہنشاہ قسطنطین نے رکھی تھی۔ قسطنطنیہ کا پوری دنیا میں بلند مقام تھا، یہاں تک کہ کہا جاتا تھا کہ اگر پوری دنیا ایک ملک ہوتی تو قسطنطنیہ اس کا دارالحکومت بننے کے قابل تھا۔
جب اس شہر کی بنیاد رکھی گئی تو یہ بازنطینیوں کا دارالحکومت بن گیا۔ یہ دنیا کے عظیم اور بہترین شہروں میں سے ایک تھا۔ جب مسلمانوں نے بازنطینی سلطنت کے ساتھ جنگ شروع کی تو اس شہر کو جنگ میں خصوصی اہمیت حاصل ہوئی۔ اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی بار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اس شہر کے فتح ہونے کی بشارت دی تھی۔
غزوہ خندق کے موقع پر جو مشہور واقعہ ہے، اس وقت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فتح کی بشارت دی تھی۔ اسی لیے مسلم خلفاء اور اسلامی لشکروں کے سپہ سالاروں نے مختلف ادوار میں اس فتح کو حاصل کرنے کے لیے پیش قدمی کی تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بشارت ان کے ہاتھوں پوری ہو۔
التفتحن القسطنطينية على يد رجل، فلنعم الأمير أميرها ولنعم الجيش ذلك الجيش
(مفہوم: تم ضرور قسطنطنیہ فتح کرو گے، جس کے ہاتھوں یہ فتح ہو گی، وہ بہترین امیر اور اس کا لشکر بہترین لشکر ہو گا۔)
اسی وجہ سے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت سے اسلامی لشکروں کا ہدف قسطنطنیہ رہا۔ اس شہر پر سب سے پہلا حملہ 24ھ میں کیا گیا تھا، لیکن یہ حملہ کامیاب نہ ہوا۔ اس کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں بھی حملے کیے گئے، لیکن سب ناکام رہے۔
اسی طرح اموی سلطنت نے بھی قسطنطنیہ پر قبضے کی کوشش کی۔ یہ حملہ اموی خلافت کے بڑے حملوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ حملہ (98ھ) میں سلیمان بن عبدالملک کے دور حکومت میں کیا گیا تھا۔ قسطنطنیہ پر حملوں کی یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ عباسی خلافت کے ابتدائی دور میں بازنطینی سلطنت پر متعدد حملے کیے گئے، لیکن کوئی بھی کامیاب نہ ہوا۔
نہ تو قسطنطنیہ فتح ہوا اور نہ ہی اس کے دفاعی دستوں کو کوئی نقصان پہنچا۔ ہاں، بازنطینی حکومت کمزور ہوئی، جس سے اس کے اندرونی حالات پر اثرات مرتب ہوئے۔ خاص طور پر ہارون الرشید کے دور خلافت میں (190ھ) میں قسطنطنیہ پر جو حملہ کیا گیا تھا، اس نے اس حکومت کو مزید کمزور کر دیا تھا۔