سلجوقی سلطنت کا خاتمہ:
ملک شاہ کی وفات کے بعد اس کے تین بیٹے تھے، برکیاق، محمد سنجر اور محمود؛ محمود بعد میں ناصر الدین محمود کے نام سے معروف ہوا، وہ ابھی بچہ تھا جب اس کے ہاتھ پر بیعت کی گئی، کیونکہ اس کی والدہ ترکان خاتون کو ملک شاہ کے دور حکومت میں بہت عزت اور مقام حاصل تھا۔ محمود تقریباً دو سال (485 سے 487ھ / 1092 – 1094ء) تک حکمران رہا۔ اس کے اور اس کی والدہ کی وفات کے بعد رکن الدین ابوالمظفر برکیاق بن ملک شاہ تخت پر بیٹھا اور 498ھ /1105ء تک حکمران رہا۔
اس کے بعد رکن الدین ملک شاہ دوم کے ہاتھ پر بیعت ہوئی مگر اسی سال ملک شاہ دوم کے بعد غیاث الدین ابو شجاع محمد نے اقتدار سنبھال لا اور وہ 511ھ /1128ء تک حکمرانی کرتا رہا۔
سلجوقی سلطنت کا آخری حکمران غیاث الدین ابو شجاع محمد تھا، جس کا دارالحکومت ماوراء النہر تھا، اس کا اقتدار خراسان، ایران اور عراق کے علاقوں تک پھیلا ہوا تھا۔ آخرکار 522ھ / 1128ء میں سلجوقی سلطنت خوارزمی حکمرانوں کے ہاتھوں ختم ہو گئی۔
ماوراء النہر میں سلجوقیوں کی اس عظیم سلطنت کے خاتمے کے بعد، سلجوقی بے اتفاقی کا شکار ہوئے، ان کا اتحاد پارہ پارہ ہوگیا، ان کی طاقت اتنی کمزور ہو گئی کہ وہ کئی گروہوں میں تقسیم ہو گئے اور آپس میں ایک دوسرے کے خلاف فوج کشی شروع کردی، تخت و تاج کے حصول کے لیے ہمیشہ ایک دوسرے سے برسرپیکار رہتے تھے۔ یہ عظیم سلطنت چھوٹی چھوٹی امارتوں میں تقسیم ہو گئی۔
یہ تمام ریاستیں اور حکومتیں کسی ایک بادشاہ کے اقتدار کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئیں، وہ سلطان طغرل بیگ، سلطان الپ ارسلان اور ملک شاہ کی طرح متحد نہیں ہوئیں، بلکہ ہر علاقہ خود مختار تھا، ہر علاقے کا اپنا بادشاہ تھا، ان چھوٹی ریاستوں کے درمیان بھی اتفاق نہیں تھا۔
اس بے اتفاقی کے نتیجے میں ماوراء النہر میں ایک اور طاقت ابھری جسے خوارزمی سلطنت کہا جاتا تھا؛ اس سلطنت نے ایک صدی تک منگول حملوں کا مقابلہ کیا۔ خوارزمی سلطنت کے ساتھ سلجوقی ریاست عراق اور شام کے شمال میں مضبوط ہوئی، جسے ’’اتابک‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اسی دوران سلاجقہ کی رومی سلطنت بھی قائم ہوئی، یہ وہ سلطنت تھی جس نے صلیبی حملوں کو روکا اور اناطولیہ کے شمال مغربی علاقے کو دشمن افواج سے بچایا، لیکن اس سلطنت نے منگول حملوں کا مقابلہ نہ کیا اور آخرکار لوٹ مار کرنے والوں کے ہاتھوں تباہ ہو گئی۔
سلجوقی سلطنت کے زوال میں کئی وجوہات تھیں، جنہوں نے عباسی خلافت کے زوال کی راہ بھی ہموار کی۔
ان وجوہات میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
۱۔ سلجوقی خاندان کے اندر بھائیوں، بھتیجوں اور پوتوں کے درمیان تاج و تخت کے لیے جنگیں۔
۲۔ کچھ امراء، وزراء اور اساتذہ کی طرف سے سلجوقی حکمرانوں کے درمیان فتنہ و فساد پھیلانا۔
۳۔ حکومتی امور میں خواتین کی مداخلت۔
۴۔ عباسی خلافت کی طرف سے سلجوقی فوجی طاقتوں کے سامنے کمزوری اور ہر طاقتور سلجوقی بادشاہ کو حکومت دینے کی اجازت دینا، خطبہ میں اس کا نام شامل کرنے کی اجازت دینا اور اس سلسلے میں احتیاط نہ برتنا۔
۵۔ سلجوقی سلطنت کی شام، مصر اور عراق میں عباسی خلافت کے تحت اتحاد قائم کرنے میں ناکامی۔
۶۔ سلجوقیوں کے مختلف گروپوں میں تقسیم اور ان کے درمیان جنگیں، جو ان کی طاقت کے زوال کا باعث بنیں، یہاں تک کہ عراق میں بھی ان کی سلطنت ختم ہو گئی۔
سلجوقی سلطنت کے خلاف باطنیوں(اسماعیلی فرقے سے تعلق رکھنے والے حسن بن صباح نے ایک خفیہ تحریک قائم کی تھی جو علماء، وزراء اور اراکین سلطنت اور امت مسلمہ کے چیدہ چیدہ افراد کو نشانہ بناتے) کی سازشیں، باہر سے صلیبی جنگجوؤں کی آمد اور یورپ سے آنے والے وحشی جنگجوؤں کے ساتھ جنگیں اس سلطنت کے زوال کی وجوہات تھیں۔
لیکن یہ بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ سلجوقیوں نے اپنے دور حکومت میں بہت سی عظیم کامیابیاں حاصل کیں، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
۱۔ سلجوقی سلطنت کی بدولت عباسی خلافت کا زوال تقریباً دو صدیوں بعد ہوا۔ اگر سلجوقی نہ ہوتے تو شیعہ اور روافض کے ہاتھوں عباسی خلافت بہت پہلے ختم ہو چکی ہوتی۔
۲۔ مصر میں عبیدی (فاطمی) سلطنت کے خلاف سلجوقیوں کی طاقت کی وجہ سے مشرقی عرب مسلمانوں نے خارجی عبیدی روافض سلطنت کو قبول نہیں کیا، اور اس طرح ان کے ناپاک مقاصد پورے نہ ہو سکے۔
۳۔ سلجوقی سلطنت کی کوششیں مشرقی اسلامی دنیا کے اتحاد کی ابتدا تھیں، اور یہی اتحاد اور یکجہتی سنی عباسی سلطنت کے پرچم تلے صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ کے ذریعے مکمل ہوئی۔
۴۔ سلجوقیوں نے اپنے زیر تسلط علاقوں میں، فوجی ترقی کے لحاظ سے اہم کردار ادا کیا اور ان علاقوں میں امن قائم کیا۔
۵۔ بازنطینی سلطنت کے صلیبی حملوں کے خلاف سخت مزاحمت کی اور منگولوں کے خطرات کو کافی حد تک ختم کرنے کی کوشش کی۔
۶۔ ان علاقوں میں سنی عقیدے کی دعوت دینے کی کوشش کی اور دینی علماء کی عزت و مرتبہ کو بلند کیا۔
یہ سلجوقیوں کے بارے میں مختصر معلومات اور اسلام کی خدمت میں ان کے کردار کا ذکر ہے، یہ بات یقینی طور پر نامناسب ہوگی کہ اگر ہم ان چند افراد کی باتوں پر توجہ دیں جو ان بہادر مجاہدین کے بارے میں بے بنیاد اور غلط باتیں کرتے ہیں، جیسا کہ پروفیسر نجيب زیب کی "المغرب والأندلس” کے عنوان کے تحت جنرل انسائیکلوپیڈیا میں ان کی خود ساختہ باتیں جو انہوں نے ان سے منسلک کیں اور ان کی کردار کشی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔