عثمان اول کی قائدانہ خصوصیات:
جب ہم عثمان اول کی سیرت پڑھتے ہیں، تو ان کی شخصیت ہمیں ایک سپہ سالار، عسکری اور سیاسی شخصیت کے طور پر نظر آتی ہے۔ ان کی بلند صفات میں سے کچھ یہاں ذکر کی جاتی ہیں:
۱۔ دلیری اور حوصلہ:
جب بازنطینی سلطنت نے بورسا، مادانوں، ادرہ، نوس کتہ اور کستلے کے عیسائی حکام کے ساتھ (۷۰۰ہجری) (۱۳۰۱ء) میں عثمانی ریاست کے بانی عثمان بن ارطغرل کے خلاف جنگ کرنے کی نیت سے صلیبی معاہدہ کیا، تو عثمان نے اپنی فوج کو آگے بڑھایا اور خود بھی جنگوں میں شریک ہوئے۔ صلیبی افواج کو شکست دینے کے دوران انہوں نے شجاعت اور دلیری کے ایسے جوہر دکھائے کہ عثمانیوں میں ان کی دلیری ایک مثال بن گئی۔
۲۔ علم اور بصیرت:
جب عثمان اپنے قبیلے کا سردار منتخب ہوا، تو اس نے بڑی بصیرت کے ساتھ سلطان علاءالدین کے ساتھ مل کر عیسائیوں کے خلاف مدد فراہم کی، اس نے کئی ایسے شہر فتح کیے جنہیں فتح کرنے کا خیال بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اسی وجہ سے روم کے سلجوقی حکمران سلطان علاءالدین سلجوقی نے عثمان کو بہت عزت دی اور اسے اپنے نام کے سکہ ڈھالنے اور اپنے زیر اثر علاقوں میں خطبہ میں اپنے نام کے پڑھنے کی اجازت دی۔
۳۔ اخلاص:
جب عثمان کے زیر نگرانی علاقوں کے قریب رہنے والوں کو یہ احساس ہوا کہ عثمان دینِ اسلام کا مخلص سپاہی ہے، تو انہوں نے اس کی مدد کے لیے اپنی قوتیں اس کے ساتھ ملائیں اور ایک ایسی اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی، جو عیسائی سلطنتوں کے مقابلے میں ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوئی۔
۴۔ صبر اور استقامت:
جب عثمان نے شہروں اور قلعوں کو فتح کرنا شروع کیا، تو (۷۰۷ہجری) میں یہ خصوصیت ان میں ظاہر ہوئی کہ انہوں نے تسلسل کے ساتھ کتالفکہ، آق حصار اور قوج حصار کے قلعے فتح کیے۔ (۷۱۲ہجری) میں اس نے کبوہ، یکیجا، طراقلوا، تکرر بیکاری اور دیگر قلعے فتح کیے۔ ان فتوحات نے (۷۱۷ہجری / ۱۳۱۷ء) میں بورصہ شہر کی فتح کو آسان بنا دیا۔ اگرچہ یہ ایک مشکل جنگ تھی، لیکن عثمان کے حوصلے اور استقامت نے اسے فتح کا تاج پہنایا۔
کئی سال تک عثمان اور امیر شہرا اقرینوس کے مابین سخت جنگیں ہوئیں، لیکن آخرکار عیسائی سپہ سالاروں نے اپنے سر جھکا دیے اور شہر عثمان کے حوالے کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے:
يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۔(آل عمران 200)
ترجمہ: "اے ایمان والو! صبر کرو اور صبر کی نصیحت کرو، دشمن کے سامنے مضبوط رہو، اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔”
۵۔ ایمانی جذبہ:
یہ خصوصیت اس وقت عثمان میں نمایاں ہوئی جب بورصہ کے سپہ سالار امیر شہرا اقرینوس نے عثمان کے بارے میں تحقیق کی اور اسلام قبول کرلیا۔ سلطان نے اُسے "بیگ” کا لقب دیا اور بعد میں وہ عثمانی ریاست کے معروف سپہ سالاروں میں شمار ہونے لگا۔ بازنطینی سلطنت کے کئی سپہ سالار عثمان کی شخصیت سے متاثر ہوئے، ان کے جنگی اور سیاسی طریقوں کو پسند کیا، یہاں تک کہ عثمانیوں کی صفوں میں نئے سپہ سالاروں کی تعداد بڑھ گئی۔
بہت سی اسلامی جماعتیں عثمانی سلطنت کے جھنڈے تلے جمع ہو گئیں، جیسا کہ جماعت (غزیاروم)، یعنی رومی غازی، یہ وہ اسلامی جماعت تھی جو روم کی سرحدوں پر نظر رکھتی تھی اور ہمیشہ ان سرحدوں پر خیمے لگاتی تھی۔ یہ جماعت عباسی خلافت کے دور میں رومیوں کے حملوں کے خلاف کھڑی رہی تھی۔ چونکہ یہ جماعت ہمیشہ سرحدوں پر رہتی تھی، اس لیے انہوں نے رومیوں کے خلاف جہاد میں بڑے تجربات حاصل کیے تھے اور غیر مسلموں کی بد اخلاقیوں کی وجہ سے ان کا تعلق اسلام کے ساتھ مضبوط ہوا اور اسلامی نظام پر ان کا یقین پختہ ہو گیا۔
اسی طرح ایک اور جماعت تھی جو نیک لوگوں کی تھی، جن کی بہت شہرت تھی اور ان کا نام الأخيان یعنی الاخوان تھا۔ یہ جماعت مسلمانوں کی مالی مدد کرتی تھی، ان کی میزبانی کرتی تھی، اور غازیوں کی خدمت کے لیے فوجوں کے ساتھ مل کر کام کرتی تھی۔ اس جماعت کے بہت سے ارکان بڑے تاجروں کے ساتھ تعلق رکھتے تھے، وہ لوگ جنہوں نے اپنی دولت اسلام کے لیے وقف کی تھی۔ معاشرتی کاموں جیسا کہ مساجد، مدارس، دوکانوں اور ہوٹلوں کی تعمیر کرنا ان کی عادتوں میں شامل تھا۔
سلطنت میں ان لوگوں کی بہت عزت کی جاتی تھی، اور اس جماعت میں ممتازعلی بھی شامل تھا جو اسلامی ثقافت کو پھیلانے پر عمل پیرا تھا، لوگوں کے دلوں میں دین کی محبت اور جذبہ پیدا کرتا تھا۔ ایک جماعت حاجیوں کی بھی تھی جسے حاجیات روم یعنی روم کے حجاج کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس جماعت کا مقصد اسلامی شعور کی بیداری، اسلامی علوم کا پھیلاؤ اور اسلامی شریعت و قوانین کا علم حاصل کرنا تھا۔ اس کے علاوہ دیگر جماعتیں بھی تھیں جن کا مقصد عمومی طور پر مسلمانوں اور خصوصی طور پر مجاہدین کی مدد کرنا تھا۔
۶۔ عدل اور انصاف:
بہت سے ترک مورخین جو عثمانی تاریخ لکھ چکے ہیں، بیان کرتے ہیں کہ ارطغرل نے اپنے بیٹے عثمان کو عثمانی سلطنت کا بانی قرہ جہ حصار میں مقرر کیا تھا، یہ وہ دور تھا جب ۶۸۴ہجری / ۱۲۸۵ء میں اس شہر پر مسلمانوں کا قبضہ تھا۔ عثمان نے ایک جنگ میں ایک مسلمان کے خلاف اور بازنطینی عیسائی کے حق میں فیصلہ کیا، بازنطینی اس پر حیران ہو گیا اور عثمان سے پوچھا: "تم کیسے میرے حق میں فیصلہ کر سکتے ہو، میں تو تمہارے دین پر نہیں ہوں؟” تو عثمان نے جواب دیا: "میں تمہارے حق میں کیسے فیصلہ نہ کروں، وہ اللہ تعالیٰ جس کی ہم عبادت کرتے ہیں، فرماتا ہے:
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأماناتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَعْدِلُوا۔ (النساء / 58)
ترجمہ: "اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل تک پہنچاؤ اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو۔”
عثمان کے اس عدل اور انصاف کی بدولت ان لوگوں اور قوموں کو ہدایت ملی اور ان کا ایمان مضبوط ہوا۔ عثمان اول اپنی رعایا اور مفتوحہ علاقوں کے لوگوں کے ساتھ عدل اور انصاف سے پیش آتے تھے۔ فتح شدہ قبائل کے ساتھ وہ ظلم، زیادتی یا لوٹ مار کے طریقے اختیار نہیں کرتے تھے، بلکہ وہ ان کے ساتھ اللہ کے اس ربانی حکم کے مطابق سلوک کرتے تھے۔
أَمَّا مَنْ ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبَهُ ثُمَّ يُرَدُّ إِلَى رَبِّهِ فَيُعَذِّبُهُ عَذَابًا تُكْرًا وَأَمَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُ جَزَاءُ الْحُسْنَى وَسَتَقُوْلُ لَهُ مِنْ أَمْرِنَا يُسْرًا (الکھف / ۸۷-۸۸)
ترجمہ: ” فرمایا، جو ان میں سے ظلم کرے گا، ہم اسے سزا دیں گے، پھر وہ اپنے رب کی طرف لوٹایا جائے گا اور وہ اسے شدید عذاب دے گا۔ اور جو ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا، اس کے لیے بہترین انعام ہے اور ہم اس کے لیے اپنے حکم سے آسانی فراہم کریں گے۔”
۷۔ ایفائے عہد:
عثمان ہمیشہ اپنے وعدوں کا خاص خیال رکھتے تھے۔ جو وعدہ کرتے تھے، اسے پورا کرتے تھے، ایک مرتبہ جب بازنطینی حکام نے عثمانی حکمران کو قلعے کی چابیاں دیں، تو اس نے وعدہ کیا کہ کوئی بھی عثمانی فوجی پل سے گزرنے کے بعد قلعے میں داخل نہیں ہوگا۔ عثمان نے اس وعدے کو پورا کیا اور اس کے ولی عہد نے بھی اس عہد کی پاسداری پر قائم رہے۔