عثمانی سلطنت کا قیام اور فتوحات:
عثمانی ایک ترکمن قبیلے سے ہیں، جو ساتویں ہجری صدی مطابق تیرہویں صدی عیسوی میں کردستان میں چرواہوں کی حیثیت سے آباد تھا۔ جب منگولوں نے عراق اور ایشیاء کوچک میں چنگیز خان کی قیادت میں حملے کیے، تو عثمان کے دادا سلیمان نے اپنے قبیلے کے ساتھ ہجرت کی؛ وہ کردستان سے نکل کر اناطولیہ کے علاقوں میں جا بسے اور اخلاط شہر کو اپنے قیام کے لیے منتخب کیا۔
جب سلیمان شاہ (٦٨٨هـ/ ١٢٣٠ء) میں وفات پا گئے، تو ارطغرل کو اپنا ولی عہد مقرر کیا۔ ارطغرل اناطولیہ سے شمال مغرب کی طرف مسلسل پیش قدمی کرتا گیا، اس کے ساتھ تقریباً سو خاندان اور چار سو سے زائد سوار تھے۔
جب ارطغرل منگولوں کے خطرے سے بچنے کے لیے اپنے قبیلے کے ساتھ بھاگ رہا تھا، تو ان کے خاندانوں کی تعداد چار سو سے زیادہ نہیں تھی۔ راستے میں اچانک شور و غل سنائی دیا، ارطغرل جب وہاں پہنچا، تو اس نے دیکھا کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان جنگ شدت اختیار کر چکی ہے اور بازنطینی عیسائی مسلمانوں کو پسپا کر رہے ہیں۔
ارطغرل کے پاس اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں تھا کہ وہ مکمل حوصلہ اور بہادری کے ساتھ آگے بڑھے اور اپنے مسلمان بھائیوں کو بچائے۔ ارطغرل نے عیسائیوں پر اس قدر جرأت مندانہ حملہ کیا کہ ان کی حالت خراب ہوگئی اور ارطغرل کی پیش قدمی مسلمانوں کی فتح کا سبب بنی۔
جب جنگ ختم ہوئی، تو اسلامی عثمانی فوج کے سپہ سالار ارطغرل کو آگے بڑھنے کے لیے تمام افواج کی طرف سے تھپکی دی گئی، اور اسے رومی سرحدوں کے قریب اناطولیہ کے مغربی سرحدوں میں زمین دی گئی، اس طرح اسے موقع ملا کہ وہ رومی علاقوں کی طرف مزید پیش قدمی کرے اور عثمانی سلطنت کے پھیلاؤ کا سبب بنے۔
سلجوقیوں کو ارطغرل اور اس کے ساتھیوں کی طرح مدد گار مل گئے جنہوں نے رومیوں کے خلاف جنگ میں ان کی بھر پور مدد کی، ارطغرل کی زندگی تک یہ محبت اور تعلق مضبوط رہا۔ جب ارطغرل٦٩٩هـ /(۱۲۹۹ء میں وفات پا گئے، تو انہوں نے اپنے بیٹے عثمان کو اپنا جانشین مقرر کیا، عثمان نے رومی زمینوں کی طرف پیش قدمی کی اور عثمانی سلطنت کو پھیلانے کی پرانی حکمت عملی کو برقرار رکھا۔
عثمانی سلطنت کے بانی عثمان
۶۲۵ ہجری / ۱۲۵۸ء ارطغرل کے گھر میں ایک بیٹا پیدا ہوا، ماں باپ نے اس کا نام عثمان رکھا، اسی عثمان کے نام پر عثمانی سلطنت کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ وہ سال تھا جب منگولیا نے ہلاکو خان کی قیادت میں عباسی خلافت کے دارالحکومت بغداد پر حملہ کیا۔ اس دوران بڑی بڑی سانحات پیش آئے؛ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ منگولوں کی فوج شہر میں داخل ہوئی تو ان ہاتھ مرد، عورت، بچے، بوڑھے جو ان کے ہاتھ لگے انہیں قتل کر دیا گیا۔
بہت سے لوگ ریگستانوں، وادیوں، گاؤں اور جنگلات میں چھپ گئے۔ بعض لوگ دکانوں میں چھپے اور اپنے پیچھے دروازے بند کر لیے۔ منگولوں نے ان دروازوں پر آگ لگا دی، دروازے کھولے اور تمام لوگوں کو قتل کر دیا۔ لوگ پہاڑوں کی چوٹیوں تک بھاگے، اور ان وحشیوں نے اتنی خونریزی کی کہ گلیوں میں خون کی ندیاں بہنے لگیں۔ منگولوں نے یہودیوں، عیسائیوں اور ان لوگوں کے علاوہ جو ان سے پناہ مانگ رہے تھے، کسی کو بھی نہیں بخشا۔
یہ ایک بہت بڑا سانحہ تھا جو امتِ مسلمہ کو پیش آیا، ایسی امت جو اپنی نافرمانیوں اور گناہوں کی وجہ سے کمزور ہو چکی تھی اور اس کی طاقت ختم ہو چکی تھی۔ منگولوں نے بے انتہا خونریزی، بے شمار افراد کو قتل کیا، اور مال و دولت کو لوٹ لیا۔
ان مشکل حالات میں اگرچہ امت مسلمہ شکست خوردہ تھی، لیکن عین اسی وقت عثمانی سلطنت کے بانی عثمان پیدا ہوئے۔ یہاں ایک بہت نازک نقطہ ہے اور وہ یہ کہ جب اسلامی امت کمزوری اور ناتوانی کی آخری حد تک پہنچ چکی تھی، تو یہاں سے اسے دوبارہ عروج، شان اور شوکت ملی، عزت اور کامیابی کے اونچے درجات آزمائش کے بعد ہی نصیب ہوتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ وہ جیسے چاہے ویسا کرتا ہے اور ہر حال میں اپنے حکم کو نافذ کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَة مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِ نِسَاءَهُمْ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ (القصص: ۴)
ترجمہ: بے شک فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اپنے لوگوں کو گروہوں میں تقسیم کیا، ایک گروہ کو کمزور سمجھا، ان کے بیٹوں کو قتل کرتا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھتا، بے شک وہ فساد کرنے والوں میں سے تھا۔
دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ (القصص: ۵)
ترجمہ: اور ہم چاہتے تھے کہ ہم ان لوگوں پر احسان کریں جو زمین میں کمزور کر دیے گئے تھے، اور انہیں رہنما اور وارث بنائیں۔
وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ (القصص: ۶)
ترجمہ: اور ہم انہیں زمین میں اقتدار دیں۔
بیشک اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ اپنے کمزور بندوں کو ایک دن یا دن کے ایک حصے میں آنکھ جھپکتے ہی اقتدار عطا فرمادے۔