اس سلسلے میں کچھ اور گناہ بھی ہیں جو خوارج نے کیے ہیں، وہ گناہ درج ذیل ہیں:
۱۴:- الدخول في زمرة المبتدئين (بدعتیوں میں شامل ہونا)
بدعت دین کے امور میں وہ نئی بات ہے جس کی بنیاد قرآن و سنت میں نہیں ہوتی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد»
ترجمہ: "جو کوئی ہمارے دین میں کوئی نئی بات شامل کرے جو دین سے نہیں ہے، وہ مردود ہے۔” (بخاری و مسلم)
بدعت ایمان کے خلاف ہے، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دین ناقص تھا اور اب کوئی شخص اسے مکمل کرنا چاہتا ہے۔ یہ ایمان کے خلاف ہے اور صحابہ کرام کے طریقے کے بھی مخالف ہے۔ لہٰذا، جو شخص بدعت کا راستہ اختیار کرتا ہے، وہ گمراہی کا راستہ اختیار کرتا ہے۔
خوارج نے امتِ مسلمہ کے اجماع کے خلاف نئے عقائد ایجاد کیے، کبیرہ گناہ کے مرتکب افراد کو کافر قرار دیا اور مسلمانوں سے جنگ کرنے کے فتوے دیے۔ یہ تمام باتیں بدعت ہیں کیونکہ نہ یہ قرآن میں ہیں، نہ احادیث میں اور نہ ہی صحابہ کرام نے ان کی تائید کی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"خوارج بدعت اور جہالت کے لوگ ہیں۔ ان کی ظاہری عبادت بہت زیادہ ہے، لیکن ان کے پاس عقل و علم نہیں ہے۔”
۱۵:- عصیان الله ورسوله بعصیان ولي الأمر (اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی، حاکم کی نافرمانی کے ذریعے)
اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اولی الامر کی اطاعت کریں:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ»
ترجمہ: "اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حاکموں کی بھی اطاعت کرو۔” (النساء: ۵۹)
لہٰذا، جو کوئی شرعی حاکم کی مخالفت کرتا ہے، وہ اللہ اور اس کے رسول کی بھی مخالفت کرتا ہے کیونکہ حاکم کی اطاعت شریعت کے مطابق ہے، جب تک کہ وہ اللہ کی نافرمانی کا حکم نہ دے۔
خوارج اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کے مرتکب ہیں کیونکہ وہ شرعی اماموں کی اطاعت نہیں کرتے، انہیں کافر کہتے ہیں اور دشمنوں کے خلاف اتحاد کرنے کے بجائے اپنے ہی مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھاتے ہیں۔ یہ اس آیت کی واضح مخالفت ہے جو ہمیں حاکم کی اطاعت کا حکم دیتی ہے۔ اس طرح وہ عملاً اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں اور دشمنوں کے بجائے اپنی امت کے خلاف جنگ کرتے ہیں۔
۱۶:- نزع الید من الطاعة (اطاعت سے دستبرداری)
یہ وہ عمل ہے جس میں کوئی شخص مسلم حاکم کی اطاعت سے انکار کرتا ہے، بیعت توڑتا ہے اور حکومت کے خلاف بغاوت کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من خرج من الطاعة، وفارق الجماعة، فمات، مات ميتة جاهلية»
ترجمہ: "جو اطاعت سے نکل جائے، جماعت کی مخالفت کرے اور مر جائے، تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔” (صحیح مسلم)
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ اطاعت سے نکل جانا جاہلیت کی علامت ہے اور ایسے لوگ شرعی اعتبار سے ناجائز عمل کرتے ہیں۔
خوارج اسلامی حکمرانوں کے ساتھ بیعت نہیں کرتے، اطاعت سے باہر نکلتے ہیں اور مسلم حکومتوں کے خلاف ہتھیار اٹھاتے ہیں۔ یہ بالکل وہی "اطاعت سے دستبرداری” ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ انہوں نے امت کے اتحاد کو توڑ دیا، فتنے پھیلائے اور اسلام کے دشمنوں کی مدد کی۔