شیخ بدرالدین اپنی گمراہی پر سختی سے قائم تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ وہ اس علاقے پر غلبہ حاصل کرے گا، کیونکہ یہ علاقہ ہر طرف سے حملوں کی وجہ سے مکمل طور پر تباہ ہو چکا تھا، اور یہاں بے امنی اور قانون شکنی کا ماحول پھیلا ہوا تھا۔ بدرالدین کہتا تھا: "میں پوری دنیا میں اپنے عقیدے کی تبلیغ کی کوشش کر رہا ہوں، وہ عقیدہ جو قابلِ قبول ہے اور جس کی مجھے غیب سے رہنمائی ملی ہے۔ میں دنیا کو اپنے دو مریدوں کے ذریعے راز کی قوت سے تقسیم کروں گا، تقلید کے پیروکاروں کے قوانین اور مذہب کو ختم کر دوں گا، اور شریعت میں بعض حرام چیزوں کو حلال قرار دوں گا۔”
رومانیہ کے امیر الافلاق نے اس بدعتی اور زندیق کی مدد کی۔ سلطان محمد چلبی اس مادہ پرست اور اسلام دشمن شخص کی تلاش میں تھا، جس نے جھوٹا دعویٰ کیا تھا۔ سلطان نے اس زندیق کی دعوت کو پھیلنے سے روکا، یہاں تک کہ بدرالدین مجبوری میں ’’دلی اورمان‘‘ کے علاقے کی طرف چلا گیا، جو آج کل بلغاریہ میں واقع ہے۔
محمد شرف، بدرالدین کے ’’دلی اورمان‘‘ کی طرف جانے کے بارے میں لکھتے ہیں: یہ اور اس کے آس پاس کے علاقے اس کے باطنی مذہب کے قلعے تھے۔ یہ وہ علاقے تھے جو بابا اسحاق کی تحریک کا مرکز رہ چکے تھے، جو ساتویں صدی ہجری کے وسط میں سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف بغاوت کے لیے تیار ہوئی تھی۔ بدرالدین کا ان علاقوں میں جانا اور اپنے لاکھوں مریدوں کے ساتھ ان علاقوں پر قبضہ کرنا، اور ان علاقوں میں اس تحریک کی شدت، اس بات کا ثبوت ہے کہ شیخ نے یہ علاقہ اپنی مرضی سے چنا تھا۔
شیخ کو ’’دلی اورمان‘‘ میں یورپی مدد بہت اچھے طریقے سے مل رہی تھی، یہاں تک کہ سلطان کے خلاف بغاوت کا دائرہ بہت وسیع ہوگیا۔ اسلام کے حقیقی دشمنوں اور ان باطنی باغیوں کی تعداد سات یا آٹھ ہزار تک جا پہنچی۔
سلطان محمد اول، جو ایک بیدار مغز اور ہوشیار شخص تھا اور ہر کام کو سوچ سمجھ کر انجام دیتا تھا، وہ ان حالات سے کیسے بے خبر رہ سکتا تھا؟ سلطان نے بدرالدین، اس کے ساتھیوں اور اس کی تحریک کو ختم کرنے کے لیے کسی اور کو سپہ سالار مقرر نہیں کیا بلکہ خود ہتھیار اٹھائے، میدان میں نکلا، اور ایک بڑا لشکر لے کر دلی اورمان پہنچا۔
سلطان محمد نے ’’سیروز‘‘ میں جو آج یونان کا حصہ ہے، لشکر کو اپنی قیادت میں تیار کیا اور بغاوت کو کچلنے کے لیے روانہ ہوا۔ دونوں طرف سے جنگ شروع ہوئی، باغی شکست کھا گئے اور بدرالدین جو ان کا سربراہ تھا، شکست کے بعد سلطان کے خوف سے چھپ گیا۔
سلطان کے ساتھیوں نے پوری کوشش سے باغیوں کی صفوں میں گھس کر چالاکی سے کام لیا اور آخرکار ان باطنیوں کے بدعتی رہنما بدرالدین کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ جب بدرالدین کو سلطان کے سامنے پیش کیا گیا، تو سلطان نے اس سے پوچھا: تمہارا چہرہ سرخ کیوں ہو گیا ہے؟ بدرالدین نے جواب دیا: میرے آقا! جب مجھ پر امور کا بوجھ پڑتا ہے تو میرا چہرہ سرخ ہو جاتا ہے۔
سلطنت کے علماء نے بدرالدین سے مفصل اور آزاد مناظرے کیے، اور پھر شرعی قانون کے مطابق اسے سزائے موت سنائی گئی۔
بدرالدین جن باطل نظریات کی طرف لوگوں کو بلاتا تھا، وہ بالکل آج کل کے یہودی ماسونی نظریے جیسے تھے، جنہیں آج پندرہویں ہجری صدی میں زور و شور سے پھیلایا جا رہا ہے۔ اس دعوت کا مقصد مسلمانوں اور باطنی نظریات کے ماننے والوں کے درمیان تمام دیواریں گرا کر ایک قوم بنانے کا بہانہ تھا۔
حالانکہ ان ’’وحدتِ ادیان‘‘ کی دعوت دینے والوں سے اتحاد اور یکجہتی ایک آسان معاملہ ہے، مگر بات یہ ہے کہ یہ نظریہ اسلامی عقیدے کے خلاف ہے، کیونکہ اسلام کہتا ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان اخوت اور دوستی قائم نہیں ہو سکتی۔ تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے دشمنوں اور توحید کے علمبردار مؤمنوں کے درمیان بھائی چارہ کیسے قائم ہو سکتا ہے؟
سلطان محمد اول کو ادب سے خاص شغف تھا، وہ شاعری، ادب اور فنونِ لطیفہ کا بہت خیال رکھتا تھا۔ وہ پہلا حکمران تھا جو مکہ کے امیر کو سالانہ تحفہ بھیجا کرتا تھا، جسے ’’الصُرّۃ‘‘ یا مخصوص بکسہ کہا جاتا تھا۔ دراصل یہ ایک خاص رقم ہوتی تھی جو مکہ کے امیر کو بھیجی جاتی، تاکہ وہ یہ پیسے مکہ اور مدینہ کے محتاجوں اور بے سہاروں میں تقسیم کرے۔