فلاحی ادارے اور تنظیمیں:
داعش تنظیم کی مالی معاونت ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی مسئلہ ہے۔ اس تنظیم نے فلاحی اداروں کے ذریعے مالی وسائل حاصل کرنے کے لیے مختلف طریقے اپنائے ہیں، جن میں زکات اور صدقے کے نام پر امداد، انٹرنیٹ مہمات، اور فلاحی اداروں کے ذریعے اسلحہ اور ساز و سامان کی ترسیل شامل ہے۔ اس گروہ کے مالی ذرائع کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ فلاحی اداروں کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھی جائے اور مشتبہ اداروں کے خلاف قانونی اور فوری اقدامات کیے جائیں۔
روسی فیڈریشن کے اسٹریٹیجک اسٹڈیز انسٹیٹیوٹ کی تحقیقات کے مطابق، زیادہ تر وہ فلاحی ادارے اور تنظیمیں جنہوں نے داعش تنظیم کی مالی معاونت میں مؤثر کردار ادا کیا ہے، سعودی عرب اور قطر کی نجی امداد کے تحت قائم کی گئی ہیں۔ فلاحی اداروں اور تنظیموں کے ذریعے داعش کی مالی معاونت سے متعلق درج ذیل نکات قابلِ غور ہیں۔
فلاحی اداروں کے نام سے سوء استفادہ:
دیگر مجرمانہ سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ، داعش نے فلاحی اداروں کے نام پر مختلف طریقے اختیار کیے تاکہ عوام سے مالی امداد حاصل کر سکے۔ مثال کے طور پر:
زکات اور صدقات:
اس گروہ نے زکات اور صدقات کے نام پر مختلف ممالک کے عوام سے بے شمار مالی امداد جمع کی ہے۔ ایک نمایاں مثال یہ ہے کہ فرانس کی خفیہ ایجنسیوں نے ۴۱۶ ایسے افراد کی نشاندہی کی ہے جو زکات اور صدقات کے نام پر داعش کے لیے مالی امداد اکٹھی کر رہے تھے اور پھر یہ رقوم ترکی اور لبنان کے ذریعے شام منتقل کی جاتی تھیں۔
آن لائن مہمات:
یہ گروہ انٹرنیٹ کے ذریعے یتیموں، بیواؤں، مساجد کی تعمیر اور دیگر فلاحی کاموں کے نام پر امداد جمع کرنے کے مختلف مہمات چلاتا ہے، حالانکہ حقیقت میں یہ امداد داعش کے ارکان کو بھیجی جاتی ہے۔
مشکوک فلاحی ادارے اور تنظیمیں:
یہاں چند ایسے فلاحی اداروں اور تنظیموں کا ذکر کیا جاتا ہے جنہیں عالمی سطح پر داعش کی مالی معاونت کرنے والوں کے طور پر شناخت کیا گیا ہے:
الف۔ عید چیریٹی (قطر):
یہ ایک قطری غیر منافع بخش فلاحی ادارہ ہے جو ۱۹۹۵ء میں دوحہ شہر میں قائم کیا گیا۔ یہ ادارہ انسانی امداد، صحت، تعلیم اور سماجی ترقی کے شعبوں میں سرگرم ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس ادارے کے بانی عبد الرحمن بن عمیر النعیمی ہیں۔ امریکہ کے محکمہ خزانہ نے اس ادارے کے سربراہ پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے القاعدہ کے علاوہ داعش کو بھی بڑے پیمانے پر مالی امداد فراہم کی ہے۔
ب۔ IHH ترکیہ:
یہ ادارہ ترکی میں انسانی حقوق، آزادیوں اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کام کرنے والا ایک غیر سرکاری ادارہ ہے، جو ۱۹۹۲ء میں استنبول میں چند رضاکاروں کی جانب سے قائم ہوا اور ۱۹۹۵ء میں باقاعدہ طور پر رجسٹرڈ کیا گیا۔ یہ ادارہ دنیا کے ۱۳۰ ممالک میں سرگرم ہے، جن میں شام، فلسطین، صومالیہ، بنگلہ دیش، یمن اور افریقی ممالک اس کے خاص مراکز ہیں۔
اس ادارے پر یہ الزام ہے کہ اس نے شام میں داعش کے زیر قبضہ علاقوں میں مالی امداد تقسیم کی ہے۔ ۲۰۲۱ء میں مروہ دوندار، جو ایک داعش جنگجو کی بیوی تھی، نے ترکی کی عدالت کے سامنے اعتراف کیا کہ انہیں IHH کے ذریعے دی گئی امداد شام میں داعش کے زیرِ قبضہ علاقوں میں تقسیم کی گئی۔ تاہم ادارے نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے اسے اپنی بدنامی کی کوشش قرار دیا۔
ج۔ نجات فلاحی ادارہ (افغانستان):
یہ ایک غیر سرکاری، غیر سیاسی اور غیر منافع بخش ادارہ ہے جو ۱۹۹۱ء میں پاکستان کے شہر پشاور میں افغان مہاجرین میں منشیات کے علاج کے لیے قائم کیا گیا۔ ۲۰۰۵ء میں اس ادارے نے اپنا مرکزی دفتر کابل منتقل کردیا۔
اس ادارے کے ڈائریکٹر سعید حبیب احمد خان کو داعش کے لیے مالی سہولتیں فراہم کرنے میں ملوث قرار دیا گیا تھا، اور بالآخر ۲۰۱۹ء میں امریکی محکمہ خزانہ نے اس ادارے پر پابندیاں عائد کیں، کیونکہ اس ادارے کو داعش خراسان کو مالی امداد کی فراہمی، جنگجوؤں کی بھرتی اور منصوبہ بندی کا ذریعہ سمجھا گیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق، نجات فلاحی ادارے نے خیرات کے نام پر قطر، متحدہ عرب امارات، عراق اور کچھ دیگر مشرق وسطیٰ کے ممالک سے رقوم جمع کیں اور پھر انہیں کابل اور جلال آباد کے دفاتر کے ذریعے داعش کے کمانڈروں میں تقسیم کیا۔
مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ داعش نے فلاحی اداروں کے نام پر دنیا بھر سے بے شمار امداد حاصل کی ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ داعش نہ صرف ان فلاحی اداروں کے ذریعے مالی امداد حاصل کرتی ہے بلکہ بعض ایسے ہی ادارے اس گروہ کے جنگجوؤں، اسلحے اور سازوسامان کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک منتقل بھی کرتے ہیں۔
لہٰذا ضروری ہے کہ ان فلاحی اداروں کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھی جائے اور مشتبہ اداروں کے خلاف فوری اور قانونی کاروائیاں کی جائیں تاکہ اس گروہ کے مالی ذرائع ختم کیے جا سکیں۔