خوارج (داعش) تاریخ کے اوراق میں | گیارہویں قسط

✍️ بہاند

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خوارج کو گمراہی سے بچانے کی آخری کوشش بھی کر ڈالی۔

اس بار انہیں ایک خط بھیجا، اور اس میں کہا کہ اگلے پیر ہمارا منصوبہ ہے کہ ہم لشکر کو منظم کریں اور اصلی دشمن کو ختم کرنے کی خاطر جہاد کو جاری رکھیں، تم لوگ ہمارے ساتھ شامل ہو جاؤ۔

لیکن اس بار بھی خوارج کا جواب ماضی کی طرح انتہائی گستاخی اور بدتمیزی پر مشتمل تھا۔خوارج نے انہیں لکھا:

اگر تم اپنے گزشتہ اعمال کی بنیاد پر خود کو کافر کہو (نعوذ باللہ) اور رب سے توبہ کرو تو ہم تمہارے ساتھ جہاد جاری رکھنا قبول کر لیں گے، اور اگر تم یہ تسلیم نہ کرو تو پھر جان لو کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

"ان اللہ لا یحب الخائنین” (اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا)۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پھر یہ یقین ہو گیا کہ یہ لوگ اصلاح کے قابل نہیں، اس لیے انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ انہیں چھوڑیں اور انہوں نے اپنا کام اور اپنی تمام سوچ کو اصلی دشمن کی جانب موڑیں، تاکہ اپنی فتوحات جاری رکھ سکیں اور اسلامی خلافت کو وسعت دے سکیں۔

لیکن جب انہوں نے اپنے لشکر کے ساتھ کوفہ سے نکلنے کا ارادہ کیا، تو اچانک خبر آئی کہ خوارج نے عبد اللہ بن خباب رضی اللہ عنہ اور ان کی اہلیہ جو کہ حاملہ بھی تھیں، انہیں شہید کر دیا ہے، اور یہ کہ خوارج نے ہر جانب بڑے پیمانے پر فساد پھیلانا شروع کر دیا ہے، جس کی وجہ سے نہ تو لوگوں کا مال محفوظ ہے اور نہ ہی ان کی جان و عزت۔

اس پر لوگوں نے علی رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ اگر ہم کفار سے مقابلہ کرنے نکل جاتے ہیں، تو یہاں کا سب کچھ فتنہ گروں کے رحم و کرم پر ہو گا اس لیے جلد از جلد ان کے خلاف کاروائی کی جائے۔

علی رضی اللہ عنہ نے حرب من مرۃ العبدی کو خوارج کی جانب روانہ کیا تاکہ اس بار بھی ان کے مطالبات جان سکیں۔

لیکن خوارج نے انہیں شہید کر ڈالا اور اس کے ساتھ ہی اعلانِ جنگ کر دیا۔

علی رضی اللہ عنہ نے شام جا کر کفار کے خلاف جہاد کرنے کا اپنا ارادہ ترک کر دیا اور اس میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے بڑی حکمت تھی۔

جاری ہے۔۔۔!

Author

Exit mobile version