خوارج (داعش) تاریخ کے اوراق میں | آٹھویں قسط

✍️ بہاند

#image_title

خوارج کا ارادہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے اچھا نہیں تھا اور وہ بہانے کی تلاش میں تھے کہ کس طرح حضرت علی پر کوئی الزام لگائیں اور اپنے عادت کے مطابق ایک اور خلیفہ کے خلاف بغاوت کر دیں۔

جنگ صفیان کے دوران جو کہ ۳۶، ۳۷ ہجری میں پیش آئی، خوارج کے ہاتھ ایک بہانہ آ گیا اور وہ یہ کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے قرآن اٹھا کر مطالبہ کیا کہ اب مزید جنگ ختم ہو جانی چاہیے۔

خوارج نے فورا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دھمکی دی کہ شامیوں کی درخواست قبول کر لیں ورنہ ٰآپ کے ساتھ بھی وہی کریں گے جو ہم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مصلحت کی وجہ سے یہ بات مان لی۔

جب ان کے ہاتھ سے یہ بہانہ بھی جاتا رہا تو تحکیم کا مسئلہ سامنے آ گیا، اور عمرو بن العاض رضی اللہ عنہ اور ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ فیصلہ ساز کے طور پر مقرر ہوئے۔

خوارج نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اعتراض اٹھایا کہ "الحکم للہ” فیصلہ کا حق اللہ کے پاس ہے، آپ انسانوں کے ذریعے فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں؟

خوارج نے اس کے ساتھ حضرت علی، حضرت معاویہ اور دیگر کبار صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کے خلاف کفر کا فتویٰ صادر کیا اور انہیں واجب القتل ٹھہرا دیا (نعوذ باللہ)۔

بارہ ہزار لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صف سے جدا ہو گئےاور انہوں نے ایسے نازک مرحلے میں ان کی اطاعت سے نکل کر خروج کر دیا جب بہت سے مسلمان اس جنگ میں شہادت پا چکے تھے، اور لوگ کہہ رہے تھے کہ اب ہم سرحدات کی حفاظت اور جہاد کے لیے لوگ کہاں سے لائیں گے؟

اور اسی گروہ نے جس نے فیصلہ قبول نہ کیا، الحکم للہ کا نعرہ اس لیے بلند کیا کہ تاکہ شر و فساد کو ہوا دے سکے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف لوگوں میں نفرت پیدا کر دیں۔

اسی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ نعرہ اچھا ہے لیکن یہ اس کی وجہ سے فساد برپا کر رہے ہیں۔

Author

Exit mobile version