اس فکر کی اساس:
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۸ ہجری میں غزۂ حنین سے فارغ ہوئے تو مال غنیمت کی تقسیم شروع کی۔
لوگوں میں سے ایک شخص ٰذوالخویصرہ التمیمی) نے پکارا: اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) عدل کرو!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ہلاک ہو جاؤ، اگر میں عدل نہ کروں، تو پھر کون عدل کرے گا؟
عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اجازت دیں کہ میں اس کی گردن مار دوں!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: مت کرو کیونکہ اس کے ایسے ساتھی ہیں کہ جب تم ان کو دیکھو گے کہ نماز پڑھ رہے ہیں اور روزے رکھ رہے ہیں، تو تمہیں اپنی نمازیں اور روزے حقیر معلوم ہوں گے۔ یہ قرآن کی تلاوت کریں گے لیکن قرآن ان کے دل تک نہیں پہنچے گا۔
یہ دین سے بہت جلد اور تیزی سے نکل جائیں گے۔
تمام علماء کا اس حوالے سے اتفاق ہے کہ ذوالخویصرہ التمیمی خوارج کا بانی اور مؤسس ہے۔
دوسری طرف اس حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر غور و فکر کریں تو درج ذیل چیزیں اچھی طرح واضح ہو جاتی ہیں:
۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امانتداری، عدل اور حسن اخلاق کا اعتراف مکہ کے مشرکین حتیٰ کہ ابوجہل بھی کرتا تھا
لیکن خوارج نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم کا الزام لگایا۔ العیاذ باللہ
اس سے وہ کفر سے بھی ایک قدم آگے سرکشی کی طرف نکل گئے۔
۲۔ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ ان کا خاتمہ قتل و غارت سے نہیں ہو گا، اور یہ ہمیشہ مسلمانوں کے درمیاں فتنہ و فساد پیدا کرتے رہیں گے۔
اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو اسے قتل کرنے کی اجازت نہیں دی۔
۳۔ خوارج دائرۂ اسلام میں ایک لمحہ ہی رہ پاتے ہیں اور ان کی آخری منزل کفر اور برا خاتمہ ہو گا۔
کیونکہ لغت کے اعتبار سے رمق اس آخری لمحے کو کہتے ہیں کہ جس کے بعد روح نکلنا شروع ہو جاتی ہے۔