حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد خوارج نے اپنی پراپیگنڈہ مہمات تیز کر دیں اور ہر طرف اپنی پرکشش تقاریر شروع کیں اور بڑی تعداد میں لوگوں کو اپنے عقیدے پر متفق کر لیا، کیونکہ وہ پہلے سے ہی سمجھ چکے تھے کہ انہیں مسائل اور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا، اس لیے انہیں اپنی پالیسیوں کو مستقل جاری رکھنے کے لیے مزید لوگوں کی اشد ضرورت تھی۔
اور ان کے پراپیگنڈہ نے لوگوں پر اس قدر اثر کیا اور ان کی کوششوں کا ایسا نتیجہ نکلا کہ نہروان کی جنگ میں ان کے بارہ ہزار جنگجو شریک ہوئے۔
وہ جو کچھ بیان کرتے تھے اور لوگوں کو اپنی دانست میں وقت کی ضرورت کے مطابق جو کچھ دعوت دیتے تھے ان میں سے کچھ یہ ہیں:
- لوگوں پر فرض ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے براءت کریں اور ان کی خلافت تسلیم کرنے پر پشیمان ہوں۔
- امامت و خلافت کا اہل کوئی بھی ہو سکتا ہے، یہ صرف قریش پر منحصر نہیں۔
- اگر امیر کوئی گناہ کرے تو اسے معزول کرنا اور قتل کرنا واجب ہے۔
- فیصلہ کرنے کا حق صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔
یہ دعوت انہوں نے جنگ صفین تک جاری رکھی اور حضرت علی کے ساتھ ایک مذہبی جماعت کی طرح اپنی سرگرمیاں کرتے رہے اور بعد میں ایک سیاسی گروہ کی طرح سامنے آگئے اور عملی طور پر امت میں بے اتفاقی پیدا کرنے کے لیے اپنی تلواریں نیاموں سے نکال لیں۔