جب حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما خوارج کے ساتھ مناظرے کے لیے پیش ہوئے تو ان سے فرمایا:
قلت لهم: ’’أتيتکم من عند اصحاب النبي صلی الله عليه وسلم المهاجرين والأنصار، ومن عند إبن عم النبي صلی الله عليه وسلم وصهره، وعليهم نزل القرآن، فهم اعلم بتأويله منکم، وليس منکم فيهم احد.‘‘
’’میں تمہارے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب، مہاجرین اور انصار کے پاس سے آیا ہوں، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور داماد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی جانب سے آیا ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے سامنے قرآن نازل ہوا ہے، اور یہ لوگ قرآن کے تفسیر و تأویل کو تم سے بہتر جانتے ہیں، اور تم میں ان لوگوں میں سے کوئی بھی موجود نہیں ہے۔‘‘
یہ حدیث مبارکہ کافی طویل ہے، لیکن موضوع کے مطابق اس کا خلاصہ نقل کیا گیا ہے۔ اس حدیث کو سنن نسائی (السنن الکبری) میں حدیث نمبر ۸۵۲۲ کے تحت نقل کیا گیا ہے، جہاں مکمل حدیث پڑھی جا سکتی ہے۔
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے اپنی تصنیف ’’الفصل في الملل والأهواء والنحل‘‘ میں خوارج کی جہالت کے متعلق فرمایا ہے:
’’ولکن الخوارج کانوا اعرابًا جهالاً کالأنعام، بل هم أضل سبيلا‘‘
ترجمہ: لیکن خوارج جاہل دیہاتی لوگ تھے، جیسے جانور، بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ۔
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ:
’’خوارج کے رہنما پہاڑی اور صحرائی لوگ تھے، جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت شدہ سنن کے ذریعے فقہ حاصل کرنے سے پہلے ہی قرآن پڑھا تھا، اور خوارج میں سے مشہور فقہاء میں کوئی بھی نہیں تھا۔‘‘
خوارج میں کوئی ایک بھی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، ابو موسیٰ اشعری، معاذ بن جبل، ابو درداء، سلمان فارسی، زید بن ثابت، عبد اللہ بن عباس، اور نہ ہی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے شاگردوں میں سے کوئی شخص ان میں شامل تھا۔
اسی وجہ سے اگر آپ کہیں بھی خوارج کو دیکھیں گے، تو یہ بات واضح پائیں گے کہ جب بھی ان کے سامنے کوئی نیا مسئلہ آ جائے، جو کہ ایک چھوٹے سے فتویٰ کے ذریعے حل ہو سکتا ہے، تو ان کے درمیان شدید اختلاف پیدا ہوتا ہے، اور وہ اسی بنیاد پر ایک دوسرے کو کافر قرار دینے لگتے ہیں۔ یہاں سے آپ خوارج کی علمی کمزوری اور جہالت کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ لوگ کس قدر نادان، قرآن، حدیث اور علم فقہ سے دور اور بے خبر تھے۔
جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ انہیں بار بار نصیحت کرتے کرتے مایوس ہو گئے، اور زمین پر ان خوارج نے فتنہ، فساد اور ناحق خونریزی پھیلائی، تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جنگ کا اعلان فرمایا۔ اس موقع پر آپ نے خوارج کی موجودہ اور آئندہ آنے والی نسلوں کی صفات بیان فرمائیں۔
’’قاتلوا من حاد الله، وحاول أن يطفئ نور الله. قاتلوا الخاطئين الضالين القاسطين المجرمين. الذين ليسوا بقرآء للقرآن، ولا فقهاء في الدين، ولا علماء في التاويل، ولا لهذا الامر بأهل سابقة في الإسلام. و الله! لو ولوا عليكم لعملوا فيكم بأعمال كسرى و هرقل” (تاريخ الطبري ۷۸/۵)
ترجمہ: ان لوگوں کے خلاف جہاد کرو جو اللہ تعالیٰ سے دشمنی کرتے ہیں، اور زمین میں اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں کے خلاف قتال کرو جو گناہگار، گمراہ، ظالم اور مجرم ہیں۔ یہ لوگ نہ تو اللہ کے کلام کے قاری ہیں، نہ دینِ اسلام کے فقیہ ہیں، نہ علمِ تفسیر و تأویل کے جاننے والے ہیں، اور نہ ہی اسلام میں ان خوارج کا اس سے پہلے کوئی وجود رہا ہے۔
اللہ جل جلالہ کی قسم! اگر یہ لوگ تم پر حکمران بن جائیں، تو تمہارے ساتھ وہ سلوک کریں گے جو کبھی کسریٰ (ایران کے بادشاہ) اور ہرقل (روم کے بادشاہ) کیا کرتے تھے۔
وما توفيقي إلا بالله، عليه توکلت وإليه أنيب