خوارج کی پہچان | آٹھویں قسط

راشد شفيق

امامت عظمی سے متعلق خوارج کا عقیدہ:

خوارج کے ظہور سے لے کر اموی اور عباسی خلافت کے ابتدائی سالوں تک ان کا بڑا مسئلہ تھا، وہ عملی طور پر امام کی وجہ سے اپنے حکمرانوں کے خلاف لڑتے رہے کیونکہ نہ صرف یہ کہ وہ اس بات کے مخالف تھے کہ ان کو اپنے امام کے انتخاب کا حق دیا جائے بلکہ وہ حکمرانوں کی داخلی پالیسیوں سے بھی ناخوش تھے۔

وہ فکری طور پر امام کی شخصیت، خصوصیات اور اس کے سماجی کردار کے تعین میں مشغول تھے، لیکن جب بات ان میں سے کسی کو خلیفہ بنانے کی آئی تو وہ خلافت حاصل کرنے کے بجائے اپنے مخالفین کے خلاف بغاوت کرنے لگے۔

امامت سے متعلق خوارج کا نظریہ:

امامت ایک اہم عہدہ اور معاشرے کی ضرورت ہے کیونکہ لوگ اس وقت تک امن اور استحکام نہیں حاصل کر سکتے جب تک کہ ان کے پاس کوئی حکمران نہ ہو جو معاشرے کا مرجع ہو، اختلافات کو حل کرے اور امت کی حفاظت کرے۔ یہ رائے تمام علمائے امت کی ہے، لیکن خوارج اس بارے میں دو گروہوں میں تقسیم ہوئے تھے:

پہلا گروہ:

یہ خوارج کا عام اکثریتی گروہ ہے، جو امام کے انتخاب کو واجب سمجھتے ہیں، ان کے پرچم کے تحت زندگی گزارنا ضروری سمجھتے ہیں اور جب تک امام ان کے نزدیک صحیح راستے کا پیروکار نہ ہو، اس کے ساتھ جنگ کرنا واجب سمجھتے ہیں۔

دوسرا گروہ:

یہ لوگ خوارج کے محکمہ، نجدات اور بعض اباضیہ گروہ ہیں، جو یہ مانتے ہیں کہ اگر لوگ آپس میں انصاف کریں تو امام کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اگر ضرورت پیش آتی ہے تو امام کسی بھی قوم سے منتخب کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ وہ امامت کا اہل ہو۔

ان کے دلائل:

۱۔ وہ "لَا حُکْمَ إِلَّا لِلَّهِ” (حکم صرف اللہ کا ہے) کے نعرے کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں، جو ظاہر طور پر یہ معنی دیتا ہے کہ حکومت کی ضرورت نہیں۔

۲۔ وہ کہتے ہیں کہ حکم انسانوں کا کام نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کی خاص طاقت ہے۔

۳۔ اصل کام شریعت کا نافذ ہے، اور اگر لوگ خود شریعت نافذ کر سکتے ہیں تو خلیفہ کے انتخاب کی ضرورت نہیں۔

۴۔ یہ ممکن ہے کہ امام ایک چھوٹے گروہ کے ساتھ رہ جائے اور اکثریت سے الگ ہو جائے، جو امام کے وجود کو غیر مؤثر کر دے گا۔

۵۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خلفاء کے لئے کوئی مخصوص رہنمائی نہیں دی۔

۶۔ قرآن میں کہیں بھی امام کے مستقل وجود کا ذکر نہیں ہے، بلکہ صرف "وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ” (ان کے امور آپس کی مشاورت سے طے پاتے ہیں) کا حکم آیا ہے۔

لیکن، کیا یہ جماعت اپنے نظریے پر قائم رہی؟

نہیں، کیونکہ محکمہ فرقے نے جلا وطن ہونے کے بعد عبداللہ بن وہب الرّاسبی کو اپنا قائد منتخب کیا، نجدات نے جلا وطن ہونے کے دوران نجدہ بن عامر کو قیادت دی اور اباضیہ کے بارے میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ امام کے انتخاب سے انکار کرتے ہیں، لیکن ان کے اصل مآخذ جو میں نے دیکھے ہیں، اس کی تردید کرتے ہیں اور اس نظریے کو ان کے مخالفین کی طرف منسوب کرتے ہیں، جنہوں نے ان کے خلاف غلط پراپیگنڈا کیا ہے۔

خوارج کے نظریے کے مطابق امام کے انتخاب کے شرائط:

خوارج نے امامت کے لیے سخت شرائط رکھی ہیں، جو درج ذیل ہیں:

۱۔ امام کو ان کے نظر میں اسلامی عقیدے پر مضبوط قائم، مخلص اور متقی ہونا چاہیے۔

۲۔ وہ اچھے کردار کا مالک ہو، پختہ ارادے، اچھی فکر، عزم و حوصلے کا مالک ہونا چاہیے۔

۳۔ اسے گناہوں اور بے ہودہ کھیل تماشے سے محبت نہیں ہونی چاہیے۔

۴۔ کبرہ گناہ کا مرتکب نہ ہواہو، توبہ کرنے کے بعد بھی کبیرہ گناہ کا مرتکب امام نہیں بن سکتا۔

۵۔ امام کو تمام مسلمانوں کی رضا سے منتخب کیا جانا چاہیے، چند افراد کا انتخاب باقی مسلمانوں کے لیے کافی نہیں ہوتا۔

ان کا ظاہری نعرہ یہ تھا کہ امام کا عالی نسب اور بہترین قوم میں سے ہونا ضروری نہیں، لیکن اس نعرے کے پیچھے ان کا تعصب کار فرما تھا؛ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ امام "اہل الحل والعقد” (اہل حل و عقد کی مجلس) کی رضا سے منتخب کیا جاتا ہے، حقیقت میں یہ کوئی نیا اصول نہیں جو صرف خوارج نے متعارف کروایا ہو بلکہ یہ ایک اسلام مسلم اصول ہے، جیسا کہ کچھ مستشرقین خوارج کی تبلیغ کے لیے کہتے ہیں۔

خوارج نے "الخلافة في قريش” (خلافت قریش کا حق ہے) صحیح حدیث پر توجہ نہیں دی اور نہ ہی امامت کے لیے قریشی ہونے کی شرط کو قبول کیا۔

مفضول امام کا انتخاب:

خوارج میں اس بات پر اختلاف تھا کہ اگر بہترین شخص موجود ہو، تو کیا اس سے کم صلاحیت والے شخص کو امام منتخب کیا جا سکتا ہے؟

۱۔ بہت سے خارجی گروہوں نے اس بات کو نہیں مانتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ عمل غلط ہے اور امامت صرف بہترین شخص کا حق ہے۔

۲۔ جبکہ دیگر گروہوں نے اس کو جائز سمجھا اور ان کا ماننا تھا کہ اگر بہترین شخص موجود ہو، تب بھی کم تر شخص کے لیے امامت صحیح ہو سکتی ہے۔

خواتین کی امامت:

امامت ایک بڑی اور حساس ذمہ داری ہے، جس کے لیے وسیع سوچ، بصیرت اور خاص مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے، اور اللہ جل جلالہ نے زیادہ تر یہ خصوصیات مردوں کو دی ہیں۔ اس بات سے بس یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ جل جلالہ نے اپنے دین کے پیغام کو پھیلانے کے لیے مردوں کو منتخب کیا ہے۔ تمام علماء اسلام متفق ہیں کہ خلافت عورتوں کے لیے مناسب نہیں ہے۔

لیکن خوارج میں سے "الشبيبية” نامی فرقہ خواتین کو بھی امامت دینے کو جائز سمجھتا ہے اور ان کی دلیل یہ ہے کہ شبیب کے انتقال کے بعد غزالة (جنہیں بعض نے ان کی بیوی اور بعض نے ان کی ماں کہا ہے) کو ان کی قائد کے طور پر منتخب کیا گیا۔

Author

Exit mobile version