خارجی عقیدے کی کچھ وضاحتیں:
خوارج نے دوسرے فرقوں کی طرح عقیدتی مسائل پر بحث کی، لیکن ان کے بیشتر نظریات ہمیں ان کی اپنی کتابوں سے نہیں ملے بلکہ اہل سنت والجماعت کی کتابوں سے معلوم ہوئے ہیں، جن میں اہل سنت والجماعت اور دیگر فرقوں کے علماء نے خوارج کے اقوال و نظریات نقل کیے ہیں۔ ہم نے پہلے بھی وضاحت دی ہے کہ کیوں ہم ان روایات کو خوارج کے نظریات کے اظہار کے لیے معتبر مانتے ہیں۔
نیچے وہ اہم مسائل ذکر کیے جائیں گے جن میں خوارج کا خاص نظریہ تھا:
۱: کیا خوارج نصوص میں تحریف کرتے ہیں یا نہیں؟
نصوص کی تحریف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے دور کے بعد فرقوں اور گروپوں کے ظاہر ہونے کے ساتھ شروع ہوئی۔ تحریف کے بہت خطرناک نتائج ہو سکتے ہیں کیونکہ جتنا زیادہ لوگ نصوص میں تحریف کرتے ہیں، اتنا ہی وہ اصل معنی سے دور ہوتے جاتے ہیں۔
خارجی نظریے کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے:
بعض علماء کا کہنا ہے کہ خوارج نصوص میں تحریف کرتے ہیں تاکہ انہیں اپنے مفادات کے مطابق بنا سکیں؛ وہ سمجھتے ہیں کہ تحریف ہی نصوص کا اصل معنی ہے، یہ رائے ابن عباس رضي الله عنه، شیخ ابن تیمیہ رحمه الله اور ابن القیم رحمه الله کی ہے۔
ایک اور رائے یہ ہے کہ خوارج اس مسئلے میں صرف ایک عقیدہ نہیں رکھتے، بلکہ بعض خوارج ظاہر پرست ہیں اور بعض تحریف کرنے والے؛ یہ رائے امام اشعری رحمه الله نے اپنی کتاب "مقالات الإسلاميين” میں ذکر کی ہے۔
۲: صفات ربانی سے متعلق خوارج کا عقیدہ:
میں نے فرقوں اور مسالک کے علماء کی کتابوں میں خوارج کے عمومی عقیدے کے بارے میں واضح معلومات نہیں پائیں، لیکن شهرستانی نقل کرتے ہیں کہ شیبانیہ فرقے کے سربراہ ابو خالد زیاد بن عبدالرحمن الشیبانی کا اللہ جل جلالہ کے صفتِ علم کے بارے میں یہ نظریہ تھا:
"اللہ جل جلالہ کو علم نہیں تھا جب تک کہ اُس نے خود علم نہ پایا، اور چیزیں تب ہی معلوم ہوتی ہیں جب وہ وجود میں آتی ہیں۔”
یہ قول علامہ شهرستانی نے اپنی کتاب "الملل والنحل” میں ذکر کیا ہے۔
یہ باطل عقیدہ ہے، کیونکہ اللہ جل جلالہ کی صفات قدیم (جیسے خود اللہ جل جلالہ) اور غیر مخلوق ہیں۔ جو کچھ بھی اللہ جل جلالہ پیدا کرتا ہے، وہ اس کے علم اور ارادے کے مطابق پیدا ہوتا ہے، یہ ناممکن ہے کہ اللہ جل جلالہ کسی چیز کو بغیر علم کے پیدا کرے۔
۳۔ گناہ گار مسلمانوں کے حوالے سے خوارج کا نظریہ:
خوارج عام طور پر یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جو شخص گناہ کرتا ہے وہ کافر ہے، لیکن اس حکم کی جزئیات میں ان کا اختلاف ہے:
بیشتر خوارج کا عقیدہ ہے کہ گناہ گاروں نے "کفر ملت” کا ارتکاب کیا ہے، یعنی وہ اسلام سے خارج ہو گئے ہیں اور ہمیشہ کے لیے کافروں کے ساتھ جہنم میں ہوں گے۔ یہ رائے خوارج کے مندرجہ ذیل فرقوں کی ہے: المحکمة، الأزارقة، المکرمیة، الشیبانیہ (یزیدیہ کا ایک گروہ)، النجدات۔
الاباضیہ کا کہنا ہے کہ گناہ گاروں نے "کفر نعمة” کا ارتکاب کیا ہے، نہ کہ "کفر ملة” (یعنی اللہ کی ناشکری کی ہے، لیکن اسلام سے خارج نہیں ہوئے) باوجود اس کے کہ وہ ایمان رکھتے ہیں کہ اگر کوئی اپنے گناہ پر مر جائے تو وہ جہنم میں جائے گا اور دنیا میں اس کو منافق سمجھا جائے گا۔
خوارج کے دلائل:
خوارج نے اپنے نظریے کی حمایت کے لیے کچھ آیتیں اور روایات ذکر کی ہیں، لیکن ان کی تفسیر غلط کی ہے۔
۱۔ استدلال کے لیے آیت:
"هو الذي خلقكم فمنكم كافر ومنكم مؤمن”(التغابن: ۲)
وہ کہتے ہیں: اللہ جل جلالہ نے انسانوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے: مؤمن (جو قابلِ تعریف ہیں) اور کافر (جو کہ مذمت کے قابل ہیں، فاسق مؤمن نہیں ہوتے، اس لیے وہ کافر ہیں)۔
لیکن یہ استدلال غلط ہے کیونکہ: اس آیت میں صرف دو گروہ ذکر کیے گئے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تیسرا گروہ نہیں ہے۔ حقیقت میں تیسرا گروہ یعنی فاسق (گناہ کرنے والے) بھی موجود ہیں۔ یہ آیت صرف انسانی معاشرے کی تقسیم کو بیان کرتی ہے، یہ نہیں کہ ہر گناہ کرنے والا کافر ہو گا۔
۲۔ دوسری آیت:
"ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الكافرون” (المائدة: ۴۴)
وہ کہتے ہیں: جو شخص اللہ جل جلالہ کے حکم کے خلاف فیصلہ کرتا ہے، وہ کافر ہے، فاسق (گناہکار) نے اللہ جل جلالہ کے حکم کے مطابق عمل نہیں کیا، اس لیے وہ کافر ہے۔
یہ استدلال بھی غلط ہے کیونکہ: یہ آیت ان لوگوں کی طرف اشارہ کرتی ہے جو اللہ کے حکم کو نہیں مانتے اور کفر کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اگر کوئی اللہ پر ایمان رکھتا ہو، لیکن غفلت یا کمزوری کی وجہ سے گناہ کرتا ہو، تو وہ کافر نہیں ہوتا، بلکہ اسے فاسق کہا جائے گا، جب تک کہ اس کے خلاف حجت قائم نہ ہو جائے۔