داعشی خوارج عصرِ حاضر کے اُن خونی اور خطرناک فتنوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے امتِ مسلمہ کو تاریخ کی تلخ ترین یادیں چھوڑی ہیں۔ اس منحوس گروہ کے پیروکاروں نے تشدد، معصوم شہریوں کے قتل، تاریخی آثار کی تباہی، اور خوف و ہراس پھیلاکر عراق، شام اور دیگر اسلامی ممالک میں امت کو سوائے درد، غم اور بربادی کے کچھ نہ دیا۔
لیکن یہ گروہ کیسے وجود میں آیا؟ اتنی تیزی سے کیسے پھیلا؟
اور اس میں امریکہ اور خطے کی جنگوں کا کیا کردار رہا؟
یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات اس تحریر میں تلاش کیے جائیں گے۔
داعش کے وجود میں آنے کے پس پردہ اسباب میں داخلی بحران، بیرونی مداخلتیں، اور عوامی نارضگی کا مجموعی عمل دخل رہا۔
۲۰۰۳ء میں جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا اور اس کی قومی فوج کو تحلیل کر دیا، تو ہزاروں فوجی افسران اور سپاہی، جن میں اکثریت بعث پارٹی سے وابستہ تھی، بے روزگار اور بے اختیار ہو گئے۔ انہوں نے خود کو اقتدار سے محروم اور ذلت کا شکار محسوس کیا۔
اسی وقت، امریکہ کی براہِ راست حمایت کے تحت نئی عراقی حکومت رافضیوں (شیعہ گروہوں) کے ہاتھ میں چلی گئی، حتیٰ کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امریکیوں نے عراق کو ایران کو تحفے میں دے دیا۔ اس کے بعد اہلِ سنت کے خلاف تشدد، تعصب اور ناانصافی کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ حالات ایسے بنے کہ بہت سے اہلِ سنت حکومتی نظام سے دل برداشتہ ہوگئے۔ یہی ناراضگی، غم و غصہ اور بےاعتمادی جہادی گروہوں کی سرگرمیوں کے لیے ایک سازگار ماحول بن گئی۔
جب ہم داعش کی بنیاد کے حوالے سے تحقیق کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ گروہ ۲۰۰۴ء میں ’’القاعدہ فی بلاد الرافدین‘‘ کے نام سے ابومصعب الزرقاوی تقبلهالله کی قیادت میں قائم ہوا۔ ۲۰۰۶ء میں، یہ گروہ چند دیگر مسلح گروپوں کے ساتھ مل کر ’’مجلس شوریٰ المجاهدین‘‘ کے نام سے ایک اتحاد میں شامل ہوا۔ اسی سال، اس اتحاد نے ’’اسلامی ریاستِ عراق‘‘ کا اعلان کیا، جس کی قیادت ابوعمر البغدادی کر رہے تھے۔
جب شام میں بدامنی اور انتشار بڑھا، تو یہ گروہ ۲۰۱۳ء میں ابوبکر البغدادی کی قیادت میں شام تک پھیل گیا اور اپنا نام ’’دولت اسلامی عراق و شام‘‘ (داعش) رکھ لیا۔ بالآخر، ۲۰۱۴ء میں موصل پر قبضے کے بعد، ابوبکر البغدادی نے خلافت کا اعلان کیا، جسے ’’اسلامی ریاست‘‘ کے نام سے موسوم کیا۔
اگرچہ امریکہ نے عراق کا پُرانا نظام ختم کر دیا، لیکن وہ ایک نیا، مستحکم اور جامع نظام قائم کرنے میں ناکام رہا۔ سابقہ حکومت کا مکمل انہدام اور اقتدار کو محدود گروہوں کے حوالے کرنا، کرپشن، بدامنی اور مذہبی اختلافات کی آگ کو مزید بھڑکانے کا باعث بنا۔
جب ۲۰۱۱ء میں امریکہ نے عراق سے انخلا کیا، تو نوری المالکی کی حکومت قومی یکجہتی قائم کرنے میں ناکام رہی۔ اس نے اہلِ سنت کو اقتدار سے دور رکھا، اور یہی سیاسی و مذہبی خلاء داعش نے اپنے فائدے کے لیے استعمال کی، جس کے نتیجے میں اسے عوامی سطح پر وسیع حمایت حاصل ہوئی۔
۲۰۱۴ء میں، داعش نے عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر قبضہ کر لیا؛ اس وقت عراقی فوج کسی قسم کی مزاحمت کیے بغیر پیچھے ہٹ گئی اور شہر چھوڑ دیا۔
دوسری طرف، اُسی وقت ۲۰۱۱ء میں شام میں بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج شروع ہوئے، جو جلد ہی ایک خونریز خانہ جنگی میں بدل گئے۔ کئی مسلح گروہوں نے بشار الاسد کے خلاف بغاوت کی، اور مرکزی حکومت کی کمزوری، بدامنی، اور منظم فوج کی عدم موجودگی کے باعث، داعش وہاں بھی تیزی سے پھیل گئی۔