داعش؛ اسلام کے نام پر مغرب کا تخلیق کردہ گروہ! دوسری قسط

جنید

اس گروہ کی بنیاد ۱۹۹۹ء میں ’’جماعت التوحید والجهاد‘‘ کے نام سے رکھی گئی۔ ۲۰۰۴ء میں اس نے القاعدہ کے ساتھ وفاداری کا اعلان کیا۔ جب مارچ ۲۰۰۳ء میں مغربی افواج نے عراق پر حملہ کیا، تو داعش نے بھی اس جنگ میں حصہ لیا۔

جنوری ۲۰۰۶ء میں یہ گروہ دیگر سنی باغی گروہوں کے ساتھ ملا اور ’’شوریٰ المجاہدین‘‘ قائم کی، اور پھر اکتوبر ۲۰۰۶ء میں اسلامی ریاستِ عراق (ISI) کے قیام کا اعلان کیا۔

جب شام میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا تو ۲۰۱۱ء میں ابو بکر البغدادی کی قیادت میں ISI نے اگست ۲۰۱۱ء میں اپنے نمائندے شام بھیجے۔ ان جنگجوؤں نے خود کو ’’جبهة النصره‘‘ (النصرہ فرنٹ) کے نام سے متعارف کرایا اور شام کے سنی اکثریتی علاقوں جیسے الرقہ، ادلب، دیر الزور، اور حلب میں اپنی موجودگی مضبوط بنائی۔

۲۰۱۳ء میں ابو بکر البغدادی نے ISI اور جبهة النصره کو یکجا کرنے کا اعلان کیا اور اس نئے اتحاد کا نام ’’اسلامی ریاست عراق و شام‘‘ (ISIL) رکھا۔ لیکن جبهة النصره اور القاعدہ کے رہنما ابو محمد الجولانی اور ایمن الظواهری، جو ان کے گمراہ کن نظریات سے واقف تھے، انہوں نے اس انضمام کی مخالفت کرتے ہوئے اتحاد سے انکار کردیا۔

اقتدار کی کشمکش کے سات ماہ بعد، القاعدہ نے ۳ فروری ۲۰۱۴ء کو ISIL سے اپنے تمام تعلقات منقطع کر لیے، کیونکہ ان کی پالیسیوں اور نظریات کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف قرار دیا گیا۔

اس گروہ نے شام میں حکومتی افواج اور مخالف گروہوں کے خلاف زمینی حملے کیے، اور میڈیا پر سر قلم کرنے کی ویڈیوز جاری کیں، جن کی وجہ سے داعش کی شہرت مزید بڑھ گئی۔

۲۰۱۴ء میں اس نے عراق کے مغربی شہروں سے عراقی حکومتی افواج کو نکال باہر کیا، اور زمینوں کے اس طرح ہاتھ سے نکلنے سے عراقی حکومت تقریباً گرنے کے قریب پہنچ گئی، جس کے نتیجے میں امریکہ نے دوبارہ فوجی کارروائیاں شروع کیں۔

Author

Exit mobile version