داعشی خلافت میں بچوں کو استعمال کرنے کی وجوہات | تیسری قسط

فرہاد فروتن

۲۔ انتہا پسند نسل کی تربیت:

داعشی تکفیری گروہ انتہاپسند نسل کی تربیت کو صرف اپنی ایک تکتیکی حکمت عملی نہیں سمجھتا، بلکہ یہ ان کے لیے ایک اسٹرٹیجک ضرورت ہے، یہ گروہ بچوں پر سرمایہ کاری کر کے اپنی نظریاتی سوچ کو زمان و مکان کی حدود سے باہر پھیلانے کی کوشش کررہا ہے۔

یہ گروہ بچوں کو "خلافت کے اصل وارث” سمجھتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ افراطی عقائد کو ان کی شناخت کا حصہ بنا دے، جب انتہا پسندی نئی نسل کے خون میں رچ بس جائے گی، تو پھر وہ کسی بھی قسم کے وحشت سے گریز نہیں کرے گی۔

کیونکہ بچے بڑوں کے مقابلے میں زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور مسلسل تعلیم کے ذریعے وفادار اورفرماں بردار قوتوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں، داعش ہمیشہ اس موضوع پر زور دیتی ہے۔ بچوں کی تربیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ مستقبل میں کم محنت کے ذریعے خودبخود داعش کی ساخت میں جگہ پا سکتے ہیں۔

جو بچے داعش کےزیرتربیت ہیں، وہ ایسے ماحول میں بڑے ہورہے ہیں جہاں یہ تکفیری گروہ ان بچوں کے لیے اپنے آپ کو ان کے لیے دوسرا گھر اور منفرد حفاظت و شناخت کے طور پر مانتا ہے۔ اس لیے چاہے داعش شکست کھا جائے، یہ بچے پھر بھی اس گروہ کی تکفیری نظریات کے ممکنہ حامی رہیں گے۔

یہ انتہاپسند بچے بہت آسانی سے خودکش حملوں، جاسوسی یا اسمگلنگ کے کاموں میں استعمال کیے جا سکتے ہیں، کیونکہ ان پر بڑوں کے مقابلے میں کم شک کیا جاتا ہے، اس لیے وہ جلدی اور آسانی سے اپنے مقاصد تک پہنچ سکتے ہیں۔

غور کریں داعشی گروہ بچوں کو "اشبال الخلافة” یا "خلافت کے شیر” کا نام دیتا ہے اورانہیں اپنی حکومت کے مستقبل کا نام دیتا ہے، یہ اصطلاح اس طرح سے ڈیزائن کی گئی ہے کہ بچے نہ صرف جنگجو ہوں، بلکہ داعش کے فخر اور نظریے کی علامت بھی بنیں۔

"اشبال الخلافة” کی اصطلاح داعش دہشت گرد گروہ ان بچوں اور کم عمر نوجوانوں کی شناخت کے لیے استعمال کرتا ہے جو اس گروہ کی نظریاتی اور فوجی تربیت حاصل کررہے ہوں، چونکہ ان بچوں کا بچپن جنگوں اور نفرتوں کے ساتھ جڑا ہوتا ہے، وہ اکثر معمول کے معاشروں سے الگ تھلگ رہتے ہیں اور ایک ایسی شناخت اپناتے ہیں جو مکمل طور پر داعش کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔

داعش بچوں کو پروپیگنڈا اور فوجی وسائل کے طور پر استعمال کرتے ہوئے، آنے والی نسلوں کے لیے ایک ایسا مستقبل بنانے کی کوشش کررہی ہے جو افراطیت اور تشدد پر مبنی ہو، یہ پالیسی نہ صرف بچوں کے حقوق کی واضح پامالی ہے، بلکہ عالمی سلامتی کے لیے بھی گہرے اور تباہ کن نتائج کا سبب بن سکتی ہے۔

Author

Exit mobile version