داعش کا خواتین اور بچوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک:
حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا جس میں ہم زندگی گزار رہے ہیں، ایسی ہولناک واقعات سے بھری پڑی ہے کہ بیدار انسان ان پر فکرمند ہو جاتا ہے اور عقل مند گہری سوچ میں پڑ جاتا ہے۔ یہ وہ واقعات ہیں کہ جب ان پر غور کیا جائے تو نہ کوئی لغت ان کو برداشت کر سکتی ہے اور نہ ہی کوئی سالم عقل ان کی تائید کر سکتی ہے۔
ان واقعات اور سانحوں کے پیچھے بعض گروہ موجود ہیں جو ان کے اصل ذمہ دار ہیں۔ انہی میں سے ایک گروہ داعش ہے، جس نے اپنے وحشیانہ نظریات کے پیچھے بے شمار مظالم چھپا رکھے ہیں، اور جب یہ نظریات عمل میں آتے ہیں تو وہ ایسے سانحات کو جنم دیتے ہیں جو انسانیت کو تباہی اور بربادی کی طرف لے جاتے ہیں۔
داعش نے جب عراق اور شام کے بعض علاقوں پر قبضہ کیا، تو اس نے ایسا وحشیانہ طرز عمل اختیار کیا کہ معاشرے کے سب سے کمزور طبقے، یعنی خواتین اور بچوں کو بدترین مصائب میں مبتلا کر دیا۔
وہ جرائم جو اس دہشت گرد گروہ نے خواتین اور بچوں کے خلاف کیے اور اب بھی کر رہا ہے، نہ تو کسی نظریے، مذہب، عقل یا منطق کی بنیاد پر قابلِ جواز ہیں، اور نہ ہی انسانی وقار، ضمیر اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق، بلکہ یہ پوری انسانیت کے ساتھ خیانت اور ظلم ہے۔
داعش نے اپنی محدود حکمرانی کے دوران اس مظلوم طبقے پر اس قدر ظلم و بربریت ڈھایا کہ دنیا کے کسی اور خطے میں ایسی ظلم و زیادتی کی مثال نہیں ملتی۔ یہ طبقہ جو ہمیشہ انسانی تاریخ میں جنگوں، جھگڑوں اور مسلح حملوں کے دوران متاثر ہوتا آیا ہے، داعشی حکومت کے دور میں بدترین انجام سے دوچار ہوا۔
خواتین سب سے زیادہ سخت حالات کا شکار ہوئیں، یہاں تک کہ بعض بازاروں میں خواتین کو سامان کی طرح خریدا اور بیچا جاتا تھا، اور ان کے وقار، عزت اور حرمت کو سخت پامال کیا جاتا تھا۔
داعش، جس کا مقصد اسلامی جہادی جماعتوں کے خلاف منفی تاثر پیدا کرنا تھا، اس میدان میں بھی بہت کامیاب رہا۔ اس نے دنیا کو یہ دکھایا کہ یہ لوگ کس قدر وحشی، خواتین دشمن اور بچوں کے قاتل ہو سکتے ہیں۔ ان علاقوں میں جہاں داعش کا تسلط تھا، فکری آزادی ممنوع تھی، اور جسمانی آزادی، خاص طور پر خواتین کے لیے، بالکل ناپید تھی۔
کسی عورت کو ان کی حکومت میں آزاد تصور نہیں کیا جاتا تھا؛ بلکہ ان کے ساتھ باندیوں جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔
اس پُر فتن اور وحشت زدہ سوچ کے نتیجے میں خواتین اور بچے اس قدر دباؤ کا شکار ہو گئے کہ معاصر تاریخ میں اس جیسا منظر کسی اور جگہ دیکھنے کو نہیں ملا۔
بعض علاقوں میں انسانی اسمگلنگ اور غلامی عام ہو چکی تھی، خواتین کو کنیزوں کی طرح خریدا اور بیچا جاتا تھا۔
ان کا رویہ اس قدر دردناک تھا کہ خواتین اور بچوں نے جینے کا احساس کھو دیا تھا؛ انہیں یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ زندہ ہی نہ ہوں۔
اگر ہم چاہیں کہ داعش کے منحرف نظریات اور وحشیانہ رویوں کی روشنی میں عورتوں اور بچوں کے حالات کا درست تجزیہ کریں، تو لازم ہے کہ اس المیے کے تین اہم پہلوؤں کو باریک بینی سے اجاگر کریں۔
۱۔ جنسی غلامی:
داعش کے نظریے میں یہ بات شامل تھی کہ جب کوئی علاقہ ان کے زیرِ تسلط آ جائے تو وہاں کی خواتین کو جنسی غلامی کے لیے استعمال کیا جائے۔ ان کے نزدیک یہ ایک طرح کا ’’اعزاز‘‘ تھا اور وہ عورتوں کو محض اپنے شہوانی جذبات کی تسکین کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ داعشیوں کے ذہن میں غلامی کا تصور زندہ تھا اور جن علاقوں پر وہ قابض ہوتے، انہیں ہر طرح کے ظلم و ستم کے لیے مباح سمجھتے۔
۲۔ جبری شادیاں:
داعشی خوارج کی جانب سے خواتین پر ڈھائے جانے والے مظالم میں جبری نکاح بھی ایک نمایاں اور سنگین پہلو تھا۔ جب کسی گروہ کی سوچ میں عورت کو ایک حقیر شے یا مال سمجھا جائے تو پھر اس کی مرضی اور اختیار کی کیا اہمیت باقی رہتی ہے؟
داعش کے ہاں عورت کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا کوئی حق حاصل نہ تھا۔ اسی سوچ کے تحت انہوں نے بے شمار خواتین کو جبراً نکاح پر مجبور کیا اور دنیا کے سامنے اپنے ظلم، عورت دشمنی اور غیر انسانی روش کا مکروہ چہرہ عیاں کیا۔
۳۔ بچوں کا جنگی مقاصد کے لیے استعمال:
داعشی خوارج کے سیاہ ماضی کا تیسرا المناک باب کم سن بچوں کا استحصال ہے۔ وہ معصوم بچے جو ابھی شریعت کی رو سے بھی ذمہ دار اور مکلف نہیں بنے تھے، داعش نے انہیں اپنے جنگی مقاصد کے لیے بطور ایندھن استعمال کیا۔
بہت سے علاقوں میں یہ منظر عام تھا کہ چھوٹے چھوٹے بچے جنگ کے لیے تیار کیے جا رہے تھے، حالانکہ وہ عمر میں ابھی دین کے فرائض کے مکلف بھی نہ تھے۔ مگر داعش کے نزدیک ان معصوموں کو جنگ کا ایندھن بنانا جائز تھا۔
داعش نے ان گھناؤنے مظالم اور جرائم کے ذریعے اپنی اصل شیطانی شکل دنیا کے سامنے بے نقاب کر دی۔ خصوصاً ان نوجوانوں کے لیے بھی ایک عبرتناک مثال بن گئی جو ممکنہ طور پر ان کی طرف مائل ہو سکتے تھے۔
یوں دنیا پر عیاں ہو گیا کہ یہ گروہ نہ انسانیت سے کوئی تعلق رکھتا ہے، نہ دین سے، نہ انصاف سے اور نہ ہی کسی مقدس جذبے سے؛ داعش نے اپنے شیطانی خیالات کے سیاہ چہرے کو دنیا کے سامنے آشکار کیا۔
اللہ تعالیٰ نے ان کے مکروہ عزائم کو بے نقاب کر دیا اور انہیں حقیقی اور مخلص جہادی تحریکوں سے الگ کر دیا۔
تاریخ میں ہمیشہ کچھ ایسے گروہ رہے ہیں جو مقدس جہاد کے تصور کو داغدار کرنا چاہتے تھے؛ کچھ ایسے لشکر ابھرے جنہوں نے اپنی سیاہ کاریوں سے مجاہدین کو بدنام کرنے کی کوشش کی، مگر اللہ رب العزت نے ہمیشہ ان کے ناپاک ارادوں کو رسوا کر کے حق کو باطل سے، پاکیزگی کو ناپاکی سے، اور روشنی کو تاریکی سے ممتاز کر دیا۔