خوارج کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سی احادیث موجود ہیں، جن میں امت مسلمہ کو اس فتنے سے خبردار کیا گیا اور اس کے بارے میں آگاہی دی گئی۔ ان احادیث میں کچھ پیشین گوئیاں بھی کی گئی ہیں جو وقتاً فوقتاً درست ثابت ہوئی ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ احادیث، پیشین گوئیاں اور نشانیاں اس دور کے خوارج (داعش) میں بھی واضح طور پر نظر آتی ہیں۔ جیسا کہ ایک حدیث شریف میں ارشاد ہے:
> *عن أبي سعيد الخدري رضياللهعنه قال: بينما نحن عند رسول الله صلیاللهعلیهوسلّم وهو يقسم قسماً، أتاه ذو الخويصرة، وهو رجل من بني تميم، فقال: يا رسول الله! اعدل. فقال: ويلك! ومن يعدل إذا لم أعدل؟!*
> *فقال عمر بن الخطاب: يا رسول الله! ائذن لي فأضرب عنقه.*
> *فقال: دعه، فإن له أصحاباً يحقر أحدكم صلاته مع صلاتهم، وصيامه مع صيامهم، يقرؤون القرآن لا يجاوز حناجرهم، يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية،*
> *يقتلون أهل الإسلام ويدعون أهل الأوثان، لئن أنا أدركتهم لأقتلنهم قتل عاد.*
> *صحیح البخاري (حدیث نمبر: 3610) صحیح المسلم (حدیث نمبر: 1064)*
> ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے، آپ غنیمت تقسیم کر رہے تھے کہ ذو الخویصرہ، جو قبیلہ بنی تمیم سے تھا، آیا اور کہا: یا رسول اللہ! انصاف کیجیے۔ آپ نے فرمایا: "ہلاک ہو تم! اگر میں انصاف نہ کروں تو کون انصاف کرے گا؟”
> حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: "یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیں کہ اس کی گردن مار دوں۔”
> آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے چھوڑ دو، کیونکہ اس کے ساتھی ہوں گے جو تمہارے نماز کو ان کی نماز کے مقابلے میں اور تمہاری روزوں کو ان کے روزوں کے مقابلے میں حقیر سمجھیں گے۔ وہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ وہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے۔ اگر میں انہیں پاؤں تو انہیں عاد کے قتل کی طرح قتل کروں گا۔”
اس حدیث شریف میں بیان کردہ تمام باتیں داعش خوارج میں موجود ہیں، اور اس خارجی فتنے کی وجہ سے امت مسلمہ کو بہت بڑا نقصان پہنچا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو اس حدیث شریف میں کہا گیا ہے کہ "وہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں (کفار) کو چھوڑ دیں گے۔” اس دور کے داعش خوارج نے بھی ہر جگہ کفار کو چھوڑ دیا اور مسلمانوں اور مجاہدین پر حملے کیے، جس سے اسلامی وحدت کو شدید نقصان پہنچا۔
دیکھیں کہ جہاں کہیں داعش خوارج ابھرے، انہوں نے سب سے پہلے مسلمانوں اور مجاہدین پر جنگ مسلط کی۔ انہوں نے عراق اور شام میں تنظیم قاعدۃ الجہاد کے خلاف محاذ بنایا، افغانستان میں اسلامی امارت کے خلاف، افریقی ممالک میں القاعدہ کے خلاف محاذ کھولے، اور ان جہادی رہنماؤں کو شہید کیا جنہیں دشمن برسوں سے تلاش کر رہا تھا۔ داعش خوارج نے ہر اس شخص کے خلاف فتویٰ دیا جو ان کے ساتھ شامل نہ تھا۔
لیکن ان خوارج نے اپنے قریب موجود کفار کو کچھ نہ کہا، کیونکہ وہ ان کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی تھے۔ کفار پر حملہ کرنا یا انہیں نقصان پہنچانا تو دور کی بات، انہوں نے علاقے میں کفار کے مفادات، بالخصوص اسرائیل کے مفادات اور فوائد کے تحفظ کو جاری رکھا اور ہر اس شخص کو کچلنے کی کوشش کی جو اسرائیل کے نقصان کا باعث تھا یا اسے کمزور کرتا تھا۔
داعش خوارج نے علاقے میں وہ تمام جہادی تحریکیں کچل دیں جو اسرائیل کے لیے خطرہ تھیں، لیکن خود اسرائیل کے خلاف انہوں نے اب تک کوئی اقدام نہیں کیا۔ بلکہ اب تو وہ کھلے عام اسرائیل کے لیے پروپیگنڈا بھی کر رہے ہیں۔ یہ اس لیے کہ وہ کفار کے دوست اور مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ یہی اس دور کے خوارج ہیں، اور ان کے بارے میں ہمارا موقف اسلامی شریعت اور نبوی ارشادات کی روشنی میں بالکل واضح ہے۔