مخلص مسلمانوں کی طرف سے مسترد ہونے اور مسلمان تاجروں اور سرمایہ کاروں کی طرف سے مالی اور اقتصادی تعاون نہ ہونے کی وجہ سے داعشی خوارج نے دوسرے ذرائع و وسائل کی طرف رجوع کیا جن میں سب سے اہم عراق اور شام سے تیل کی فروخت تھی۔
جی ہاں! داعش کی غیر اسلامی ریاست کے سنی شہروں پر کنٹرول کے بعد، یہ لوگ اپنے آپ کو ان علاقوں کا حقیقی حکمران سمجھتے تھے اور تمام مالی وسائل جو مسلمانوں کے بیت المال میں سے شمارکیے جاتے ہیں، انہوں نے ان تمام وسائل کواپنے ناجائز مقاصد کے لیے بیچا۔
اس نوٹ میں ہم درج ذیل نکات کا ذکر کریں گے:
- تیل نکالنے کے علاقے
- تیل سے داعش کی آمدنی
- داعش کے تیل کے خریدار
داعش کے سب سے اہم تیل کے ذخائر:
شام میں داعش کی سب سے اہم اور بنیادی آئل فیلڈز ’’کونیکو‘‘ اور ’’التم‘‘ تھیں، جو شام کے مشرق میں دیر الزور شہر کے مغرب اور شمال مغرب میں واقع ہیں۔
عراق میں داعش کے سب سے اہم تیل کے ذخائر ’’النجمہ‘‘ اور ’’القیارہ‘‘ سمجھے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ، دیگر چھوٹی اور ذیلی فیلڈز تھیں، جیسے ’’الورد‘‘ فیلڈ، البوکمال کی آئل فیلڈز موصل کے مغربی حصے میں اور تل الرمان قصبے کے قریب واقع تھیں۔
تیل کی فروخت سے داعش کی آمدنی:
امریکی محکمہ خزانہ کے بیان کے مطابق داعش نے صرف ۲۰۱۴ء میں ثالثوں کے ذریعے تقریباً سو ملین ڈالر کا خام تیل اور پیٹرولیم مصنوعات فروخت کیں۔
امریکی محکمہ خزانہ کے اہلکار ایڈم زوبن نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اس گروپ نے خام تیل کی تجارت کے ذریعے ۵۰۰ ملین ڈالر سے زیادہ کی کمائی کی ہے۔
۲۰۱۵ء میں، مقامی ثالثوں اور انجینئروں کے اندازوں پر مبنی فائنانشل ٹائمز اخبار کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ شام اور عراق میں داعش کے زیر کنٹرول علاقوں میں خام تیل کی پیداوار تقریباً چونتیس ہزار سے چالیس ہزار بیرل یومیہ تھی۔
اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان علاقوں میں پیدا ہونے والا ہر بیرل تیل ۲۰ سے ۴۵ ڈالر تک فروخت ہوتا تھا، جس کا مطلب ہے کہ اس گروپ کی روزانہ آمدنی کا تخمینہ ۱۵ لاکھ ڈالر لگایا گیا تھا۔
داعش کے تیل کے اہم خریدار:
داعش کے تیل کے سب سے اہم خریدار شام اور ترکی تھے۔ جی ہاں! بشار الاسد کی حکومت سے کھلی دشمنی اور مجاہدین کے ساتھ خونریز لڑائیوں کے باوجود، داعش کے خوارج نے خفیہ طور پر اسد حکومت کے ساتھ سب سے زیادہ تجارت کی۔
وہ ظالم حکومت جس نے شام کے ہزاروں بے گناہ سنیوں کا خون بہایا، اب داعش کے تیل کی بدولت پہلے سے زیادہ مضبوط ہے۔
۲۰۱۵ء میں بین الاقوامی پابندیوں نے اسد حکومت اور داعش کے درمیان تعاون پہلے سے زیادہ اورمضبوط کردیا۔ اس سال امریکی وزارت خزانہ نے دس ثالثوں کو، جن میں چار تاجر اور چھ کمپنیاں شامل ہیں، داعش اوراسد حکومت کے درمیان تیل کے سودوں کی حمایت اور ثالثی کرنے کی وجہ سے بلیک لسٹ کردیا۔
ترکی بھی داعش کے تیل کا بڑا خریدار تھا، روس کے نائب وزیر دفاع اناتولی انتونوف نے ۲۰۱۵ء میں ماسکو میں کہا:
’’شام اور عراق سے داعش کی طرف سے چوری کیے گئے تیل کا سب سے بڑا خریدار ترکی ہے۔‘‘
اس وقت کے عراق کے وزیر اعظم حیدر العبادی نے بھی جرمن وزیر خارجہ فرینک والٹرشٹائن مائر سے ملاقات میں ترکی کو اس تیل کا اہم خریدار قرار دیا تھا، جسے داعشی خوارج نےعراق اور شام سے اسمگل کیا تھا۔
یہ مسلمانوں کی عوامی دولت کی لوٹ مار کی ایک چھوٹی سی مثال تھی جسے داعشی خوارج نے اپنی جنگی مشین کو آگے بڑھانے اور اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کیا۔