داعشی خوارج کے کارناموں کے بارے میں ایسی عجیب عجیب باتیں سننے میں آتی ہیں کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ کس طرح کے بے دین اور غیر اسلامی لوگ ہیں؟
میں ننگرہار جا رہا تھا، کرولا گاڑی میں میرے ساتھ بیٹھے دو افراد داعش کے مظالم و وحشتوں پر گرما گرم بحث کر رہے تھے، ان میں سے ایک ضلع خوگیانی کے دور افتادہ علاقے کا رہنے والا تھا۔
خوگیانی کا رہائشی اپنے ساتھ بیٹھے اپنے دوست کو کہانی سنا رہا تھا کہ ہمارے علاقے میں جب آغاز میں داعشیوں نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا تو انہوں نے دیہاتوں میں اعلان کر دیا کہ جس گھر میں لڑکیاں ہوں، اس گھر پر جھنڈے لگا دیں، تاکہ ہمیں علم ہو کہ اس گھر میں کنواری لڑکیاں ہیں۔
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ کام جبری طور پر علاقے کے لوگوں پر مسلط کر دیا گیا، یعنی وہ لازمی اپنے گھروں پر جھنڈے لگائیں، اس طرح ہر کسی کے علم میں ہوتا کہ جس گھر میں جھنڈے لگے ہیں وہاں کنواری لڑکیاں موجود ہیں۔
مختصر یہ کہ گھروں پر جھنڈے گاڑ دیے گئے، پھر داعشی خوارج ان کے گھروں میں جاتے، بغیر مہر زور و زبردستی سے ان لڑکیوں سے نکاح کرتے اور کوئی انہیں روک نہیں سکتا تھا، اگر کوئی روکنے کی کوشش کرتا تو اس کا سر تن سے جدا کر دیا جاتا۔
مجھ سمیت گاڑی میں بیٹھے لوگوں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے انہیں خوارج سے بخیر و عافیت نجات دلائی اور ایک شرعی اور اسلامی نظام عطا کیا جس میں ہر مومن مسلمان، افغان کے حقوق محفوظ ہیں، امن و سلامتی کی فضا قائم ہے۔ یہاں ہر شخص اپنے مال واسباب کے حوالے سے پرامن ہے، کسی کو کسی سے کوئی سروکار نہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ اب داعشی خوارج سمیت اسلامی اور شرعی نظام کے مخالف گروہ جبہہ شر و فساد کے ارکان کے لیے ملک میں کوئی جگہ نہیں کیونکہ یہاں آباد قبائل پشتون، تاجک، ہزارہ، ازبک، پشئی، ایماق، بلوچ، نورستانی وغیرہ سب کے سب امارت اسلامیہ کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس کے وفادار ہیں۔
یہ قبائل امارت مخالف گروہوں کوکبھی بھی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اپنی سرگرمیوں کے ذریعے ایک بار پھر اس پاک سرزمین میں تفرقہ و اختلافات کے بیج بوئیں۔