محترم قارئین، آپ نے اس موضوع کو کئی بار پڑھا یا سنا ہو گا کہ داعش جیسے تکفیری اور دہشت گرد گروہ علاقائی اور غیر ملکی سیاسی طاقتوں نے بنائے ہیں، جن کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن پھر بھی ہم نے اس مسئلے کی مزید تشریح کی ضرورت محسوس کی ہے۔
سب سے پہلے ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کسی بھی مذہب کی طرف کسی عقیدے اور افکار کو منسوب کرنے کے لیے ہمیں اس مذہب کے اصل ماخذ اور اس کے پیروکاروں کے مستند اقوال کی طرف رجوع کرنا پڑے گا، لہٰذا اگر کوئی عمل دین کے اصولوں میں موجود نہیں اور مذموم ہے لیکن لوگوں نے اس پر عمل کرنا شروع کر دیا ہے تو وہ قابل قبول نہیں اوریہ مذموم عمل اس دین کے معیوب ہونے کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔
لہذا داعش کا گروہ جس میں کوئی نامور سکالر اور قابل اعتماد علماء نہیں ہیں، انہیں اسلام اور مسلمانوں کا نمائندہ نہیں سمجھا جانا چاہئے اور ان کے غیر شرعی اقدامات کی وجہ سے اسلام کے مقدسات پر اعتراض نہیں کیا جانا چاہئے۔
داعش اور دیگر تکفیری گروہ جو اسلام کے نام پر ہر قسم کے مظالم اور جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں، دراصل مسلمانوں سے الگ ایک گروہ ہے اوران کے افکاراور طرزعمل کواسلامی تعلیمات کا مظہر نہیں سمجھا جا سکتا۔
داعشی گروہ کے پس منظر سے متعلق جو خفیہ اور اہم معلومات شائع ہوئی ہیں، واضح طور پر اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ اہم سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے داعشی گروہ کو اسلامی لبادے میں تیار کرکے اس کی مکمل حمایت کی جارہی ہے، مصنف اور سیاسی تجزیہ کار J.C Verlemann نے اپنے ایک مضمون میں اس بات پرزور دیا ہے کہ ایک جرمن اخبار نے ایسی دستاویزات شائع کی ہیں جواس خیال کو مسترد کرتی ہیں کہ داعش ایک اسلامی گروہ ہے۔
مذکورہ دستاویز نے داعش سے متعلق پورے منصوبے کو بے نقاب کردیا ہے اور یہ بھی ثابت کیا ہے کہ داعش ایک مذہبی گروہ کے بجائے ایک پراکسی گروہ ہے جس کا مذہب و دین سے کوئی تعلق نہیں۔
البتہ یہ کہنا چاہیے کہ امریکی قومی سلامتی کے ادارے کے سابق مشیر ایڈورڈ سنوڈن نے اس سے قبل بھی اقرار کیا تھا کہ داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کی تمام سرگرمیاں امریکہ، برطانیہ اوراسرائیلی حکومت کے درمیان انٹیلی جنس تعاون کا نتیجہ تھا۔
دشمنان اسلام نے ہمیشہ اسلام کے مقدس دین کو داعش کے جرائم سے جوڑنے کی کوشش کی ہے، جبکہ داعش کا طرز عمل تمام مسلمانوں کے طرز عمل سے بہت مختلف ہے اور یہ گروہ کسی بھی طرح سے "مذہبی تعلیمات” کی علامت نہیں ہے۔