داعش اور مقاومت: ایک ہی سکے کے دو رخ

✍️ شہاب مایار

افغانستان میں امارت اسلامیہ کی آمد کے ساتھ ہی بعض جبہات کے جنگی پہیے گھومنے لگے۔ ان عسکری گروہوں کے لباس مختلف لیکن اہداف اور معاونین مشترک ہیں۔

تاجکستان میں پاکستان کے جاسوسی ادارے کے اہلکاروں نے گزشتہ برس جبہۂ شر و فساد کے سرکردہ ارکان کے ساتھ ایک میٹنگ کی اور اس میٹنگ میں ایک معاہدہ طے پایا کہ پاکستان جبہۂ شر و فساد کے ساتھ تعاون کے لیے داعشی خوارج کو اپنی سرحد سے لائے گا اور باغی انہیں مراکز اور خفیہ پناہ گاہیں فراہم کریں گے۔

جبہۂ شر و فساد کے نچلی سطح کے ذمہ داران میں یہ معاملہ کچھ متنازع ہو گیا تھا لیکن بڑوں نے اپنے چھوٹوں کو راضی کر لیا۔

ان کا یہ معاہدہ اس لیے کامیاب ثابت نہیں ہوا کیونکہ باغیوں کے پاس ایک بالشت بھر زمین تک نہیں، تو وہ داعش کے جنگجوؤں کو کہاں پناہ اور جگہ فراہم کرتے؟

افغانستان میں بد امنی کے پیچھے انگریزی ہاتھ ہیں کیونکہ پاکستانی جرنیل انگریز کھلاڑیوں کے ہاتھوں کی مانند ہیں، داعش اور باغیوں کے پیچھے انگریز آقا ہیں اور یہ دونوں انگریزوں کے پراکسی جنگجو ہیں، ایک نے مقاومت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے جبکہ دوسرے نے داعش کا۔

دونوں گروہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں کیونکہ دونوں منصوبے ہیں، دونوں کی پشت پر غیر ملکی ہاتھ ہے، دونوں کے اہداف افغانستان کی دینی اور ثقافتی روایتوں سے متصادم ہیں اور دونوں ہی گروہ افغانستان کی سرزمین کو تقسیم کرنے کے لیے توانائیاں خرچ کر رہے ہیں۔

امارت اسلامیہ افغانستان کے سرفروشوں کی قربانیوں اور وزارت خارجہ کی کامیاب ڈپلومیسی کے نتیجے میں دونوں گروہ بہت کمزور ہو چکے ہیں۔

مقاومت کے نام پر ترکی میں چند کونسلز تشکیل دی گئیں لیکن ان میں دراڑیں پڑ گئیں اور ان کونسلز کا پلیٹ فارم ٹوٹ گیا۔ اس کونسل میں "افغانستان قومی مقاومت” نامی ایک گروہ تھا جبکہ دوسرا گروہ "افغان عوام کی نجاب و مقاومت کی کونسل” کے نام سے تھا، لیکن دونوں کو ہی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

نجات و مقاومت کونسل کی تشکیل میں دوستم، عطا محمد نور، رحمت اللہ یارمل، سیاف، اسماعیل خان اور کئی دیگر جلا وطن افراد شامل تھے لیکن ترکی کی وزارت خارجہ کی جانب سے ان کی میٹنگز اور سیاسی اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی، حتیٰ کہ دوستم کے کمانڈوز کو ترکی سے نکال دیا گیا اور مقاومت کونسل تتر بتر ہو گئی۔

دوسرے اقدام میں تاجکستان کی جانب سے قومی مقاومت نامی خیالی جبہہ پر دراوزے بند کر دیے گئے اور انہیں اطلاع دے دی گئی کہ اپنا بوریا بستر لپیٹ لیں۔

دو ممالک میں ان پر پابندیاں کوئی معمولی بات نہیں، بلکہ یہ افغانستان کی وزارت خارجہ کی سرگرم ڈپلومیسی کا ثمر ہے۔

وزارت خارجہ کی سرگرم ڈپلومیسی کے نتیجے میں بیرون ملک ان کی سیاسی سرگرمیاں بند کر دی گئیں جب کہ داخلی طور پر افغانستان کے سکیورٹی اور انٹیلی جنس اداروں کی شدید اور بھاری ضربوں کے سبب وہ سر اٹھانے کے قابل نہیں۔

افغانستان کی عوام جانتی ہے کہ یہ ساری مذاحمتیں متعصب قوت کے ہتھکنڈے ہیں، وہ پھر سے یہاں کی معدنیات اور پورٹس پر قبضہ چاہتے ہیں، افغانستان کو اپنی اجارہ داری کی منڈی میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور سارا مال بیرون ملک اپنے محلات اور فیکٹریوں میں لگانا چاہتے ہیں۔

اگر آپ صرف عطا نور کی مارکیٹس، تجارتی کمپنیوں اور اداروں کا حساب کریں تو آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں، اپنی بیٹیوں، بیٹوں اور رشتہ داروں کے نام پر آدھے افغانستان کی بیس سالہ آمدنی چرائی، یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر رمضان بشردوست نے اسے "عطا چور” کا خطاب دیا۔

بالآخر مقاومت نامی سلسلے کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا، ان کی کوشش ہے کہ اپنی شرم کو داعش کا لبادہ اوڑھ کر چھپا لیں، لیکن یاد رکھیں کہ داعش اور مقاومت کے نام سے شر و فساد کے گروہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور افغان عوام ان کے چہروں اور نیتوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔

Author

Exit mobile version