مغرب اور امریکہ افغانستان میں بیس سالہ قبضے، ظلم و بربریت کے ساتھ ہمیشہ اس کوشش میں بھی رہے کہ امارت اسلامیہ افغانستان کے مجاہدین کے خلاف نئے وسائل اور طریقوں سے کام لیں، تاکہ ان وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے امارت اسلامیہ پر دباؤ ڈالا جا سکے اور عراق و شام کی طرح افغانستان میں بھی اپنے مذموم اہداف حاصل کر سکیں۔
قبضے کے آغاز میں امریکیوں کا خیال تھا کہ وہ افغانستان کو بڑی آسانی سے اپنے زیر تسلط لا کر اپنی کالونی بنا لیں گے، لیکن امارت اسلامیہ کے مجاہدین کی استقامت اور قربانی نے مغرب اور صلیبی استعمار کے تمام منصوبوں کو ناکام بنا دیا۔ بیس سالوں کے دوران بہت سے مختلف وسائل، ہتھیاروں، عسکری سازوسامان، اور تمام معاشی، سفارتی، انٹیلی جنس اور سیاسی حربے استعمال کرنے کے باوجود بھی وہ کابل تک میں بھی کبھی سکون سے سو نہ سکے۔
جب قبضہ گروں نے دیکھا کہ ان کی سازشیں امارت اسلامیہ کی متحد صفوں میں تفریق ڈالنے میں ناکام رہی ہیں اور انٹیلی جنس حربوں سے اس میں دراڑ نہیں ڈالی جا سکتی، تو اس نے اربکی اور قومی لشکر بنانے کے خطرناک منصوبے پر عمل کیا، لیکن یہ منصوبہ بھی بے فائدہ نکلا اور اس کا کوئی نتیجہ حاصل نہ ہو سکا۔
البتہ دشمن کے انٹیلی جنس حربوں میں سے سب سے خطرناک اور آخری حربہ افغانستان میں اسلام کا لبادہ پہنا کر داعش خراسان نامی گروہ کو تشکیل دینا تھا۔
مغربی استعمار کا خیال تھا کہ اس گروہ کے ظالم جنگجو امارت اسلامیہ کے مجاہدین کے خلاف کامیاب ہوں گے اور فتح حاصل کر لیں گے اور کم از کم اس متحد اور استعمار مخالف صف کو کمزور ضرور کر دیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ گروہ اسلام دشمن ہے، جیسا کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ داعش نے امریکہ کے اشارے پر عراقی اسلامی مذاحمت کو کمزور کیا۔
شام میں جبہۃ النصرہ کا اسلامی گروپ فتح کی دہلیز پر تھا، داعش نے اس کی پیش قدمی اور فتح کا راستہ روک دیا۔
حماس کی تحریک جو صیہونی حکومت کی جارحیت کے مقابلے میں بیت المقدس کی مقدس سرزمین کا دفاع کر رہی تھی، اس گروہ نے نہ صرف ان کی تکفیر کی بلکہ ان کے خلاف اعلانِ جنگ بھی کر دیا اور اس اسلامی ملک میں سینکڑوں مصیبتیں کھڑی کیں اور جرائم کا ارتکاب کیا۔
ان سب کے ساتھ، افغانستان میں داعشی خوارج نے امریکی انٹیلی جنس سسٹم کے براہ راست تعاون اور پاکستان اور تاجکستان سمیت خطے کے بعض ممالک کی انٹلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ مل کر مقدس مقامات اور مساجد میں دھماکے اور خود کش حملے کیے اور پھر عورتوں اور بچوں سمیت عام لوگوں کو شہید کرنے تک کسی چیز سے دریغ نہیں کیا۔
جیسا کہ سابق انتظامیہ کے رکنِ پارلیمنٹ ظاہر قدیر نے کہا تھا کہ امریکہ کی جانب سے افغانستان میں داعش کی درآمد اور قیام کے بعد یہ گروہ مزید مضبوط ہوا اور اس نے افغانوں کے خلاف بہت پرتشدد کام کیے۔
اس نے اعتراف کیا کہ ۲۰۱۸ء میں جب امارت اسلامیہ کے مجاہدین داعش کے وحشی گروہ کے خلاف مذاحمت کر رہے تھے، امریکی طیاروں نے طالبان کی جگہوں پر بمباری کی اور داعش کے اہم ارکان کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔
لیکن اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سے امارت اسلامیہ کے مجاہدین کے دلیری، استقامت، ایثار اور ہوشیاری کے ساتھ ذمہ دارانہ اور بروقت جواب نے اندرونِ ملک اس شیطانی دشمن کے تمام مراکز اور نیٹ ورک کچل ڈالے اور داعش کے نام سے استعمار کے تمام منصوبے ناکام بنا دیے گئے۔
اس کے ساتھ ہی داعشی خوارج کا یہ گروہ دشمن کے میگزین میں بچی آخری گولی کی طرح اپنی تاثیر کھو بیٹھا اور ملک سے اس کے تمام مراکز ختم ہو گئے۔
جیسا کہ اشرف غنی کی انتظامیہ میں پارلیمنٹ رکن ظاہر قدیر نے بھی اقرار کیا کہ امارت اسلامیہ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان میں امریکہ اور اشرف غنی کی بچی ہوئی میراث یعنی داعشی خوارج کا گروپ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔
اندرونِ ملک داعش کے تکفیری نیٹ ورک کی تباہی کے بعد ، خوارج نے افغانستان سے اپنے اڈے نکال لیے اور پڑوسی ممالک کے انٹیلی جنس اداروں نے انہیں پناہ دے دی۔
تازہ ترین مصدقہ اطلاعات کے مطابق اس گروپ نے بلوچستان کے شہر کوئٹہ کے قریب اپنے خفیہ ٹھکانوں کی نئی تصاویر نشر کی ہیں۔
اس سے درحقیقت المرصاد کی ان رپورٹس کی تائید ہوتی ہے جو بلوچستان میں داعش کے مراکز کی منتقلی اور خطے میں ان کے تربیتی مراکز کے قیام کے حوالے سے نشر کی گئیں تھیں اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ خارجی گروہ مزید افغانستان میں اب وجود نہیں رکھتا اور یہاں اس کے خطرات مکمل طور پر ختم کر دیے گئے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ داعش افغانستان سے نکل چکی اور اب پاکستان ہی ہے کہ جو اس تکفیری گروہ کی میزبانی اور کھلم کھلا مدد کر کے پڑوسی ممالک اور خطے میں عدم استحکام کا باعث بن رہا ہے۔