داعش: مستشرقین کے سیاسی مقاصد کے حصول میں کوشاں!

فرهاد فروتن

داعش کرائے کا ٹٹو، بدنام زمانہ اور خونخوار گروہ ہے جو دنیا میں اسلامی خلافت قائم کرنے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن درحقیقت مستشرقین کے سیاسی مقاصد کے لیے سرگرم عمل ہے، تاکہ انہیں ان کے مقاصد تک پہنچائے اور بدلے میں ان سےمراعات حاصل کرے۔

مستشرقین کا نام ان مغربی دانشوروں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو اسلامی اور سیاسی افکار، مکاتب فکر، تحریکوں اور انقلابات کو پڑھتے، مطالعہ کرتے اور اس حوالے سے تحقیق کرتے ہیں تاکہ وہ اسباب معلوم کیے جا سکیں جن سے ان کے نظام کو خطرہ لاحق ہے اور ان کے مذموم مقاصد میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔

یہ تمام تر تحقیقات اور مطالعے صرف اس لیے کہ اسلام کے بنیادی مآخذ کا وسیع مطالعہ اور گہرے تجربات کی بنیاد پر مسلمانان عالم کو آپس میں دست و گریبان کردیا جائے کہ پھر کبھی وہ کفری نظام کے خلاف اٹھنے کی صلاحیت کھو بیٹھیں۔

جب سے دشمنان اسلام کو علم ہوا ہے کہ ایک مسلمان اپنی اذان اور تکبیر کے ذریعے دشمنوں کے منتر اور دنیا کے جادو کو ختم کر سکتا ہے تو ان کے لیے داعشی گروہ کی تشکیل اور حمایت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا، کیونکہ یہ گروہ بظاہر اسلام کے خوبصورت لبادہ استعمال کرتے ہوئے دین اسلام کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں مگن ہے۔

ذیل میں ہم کچھ ایسے اہداف کا تذکرہ کریں گے جنہیں داعش حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور ساتھ ہی یہ تمام امور مستشرقین کے اہم مقاصد بھی سمجھے جاتے ہیں۔

۱۔ مسلمانوں کے مابین بھائی چارے کے جذبے کو کمزور کرنا:

داعش مسلمانوں کے درمیان موجود اخوت کے جذبے کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جو ’’انما المومنون اخوۃ‘‘ پر پختہ یقین رکھتے ہیں تاکہ مسلمانوں کا شیرازہ بکھرجائے اور ان کے دشمن آسانی سے کامیابی سے ہمکنار ہوسکیں۔

٢۔ اسلامی تحریکوں اور ان کے قائدین و راہنماؤں کو برابھلا کہنا:

مستشرقین مسلمانوں کوکمزور کرنے، اسلامی تحریکوں اور قائدین پر ان کے اعتماد کو کمزور کرنے اور اس طرح اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔

داعش نے جہادی اور عسکری تحریکوں کے رہنماؤں کو مرتد کہہ کر نوجوان نسل کو ان سے متنفر کرنے کی کوشش بھی جاری رکھی ہوئی ہے، یہی نوجوان ہیں جو مسلمانوں کی طاقت اور توانائی کا منبع ومرکز ہیں جنہیں داعش اپنے جال میں پھنسا کراعتدال پسند اسلامی و جہادی تحریکوں سے دور رکھنے کی تگ ودو میں ہے تاکہ انہیں دشمنان اسلام کے مقاصد کے لیے قربان کیا جا سکے۔

۳۔ اسلامی جہاد کی تشریح اور اس کے اصل مفہوم کو مسخ کرنے کی کوشش:

داعشی تکفیری گروہ نے جہاد کی اس طرح تشریح اور تحریف کی کہ کوئی بھی اسے اسلام کے دائرہ کار میں قبول کرنے کو تیار نہیں ہوگا، بے رحمانہ قتل، مساجد اور اسکولوں کی تباہی، تعلیمی مراکز میں دھماکے، مشہور و نامورعلماء کی شہادت اورعوامی مقامات کو نشانہ بنانا۔ اس واضح کج روی و گمراہی کے واضح ثبوت موجود ہیں۔

۴۔ مسلمانوں کو دنیا میں جاہل و پسماندہ ظاہر کرنا:

مغربی ممالک مسلمانوں کی آنے والی نسل کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انہیں ہر میدان میں مغرب کی ضرورت ہے اور وہ اس کے محتاج ہیں، داعشی تکفیری گروہ نے اسلامی ممالک کے قدرتی وسائل کو مغرب کو بیچنے کی کوشش کی تاکہ مسلمانوں کو سیاسی، معاشی اور اقتصادی معاملات میں پیچھے رکھا جائے اوربین الاقوامی ترقی کی دوڑ میں انہیں ناکام بنایا جائے۔

۵۔ داخلی اختلافات اور فتنہ کی آگ کو ہوا دینا:

دشمنان اسلام مغرب کی سوچ ہے کہ مسلمان ایک ایسی چنگاری ہیں جو جلد ہی آگ میں بدل جاتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اپنے مقاصد کو آسانی سے حاصل کرنے کے لیے اپنی تمام تر قوت کو ان کے باہمی اختلافات پر استعمال کریں۔

داعشی گروہ نے بھی اندرونی اختلافات اور مختلف فتنوں کو بھڑکانے کی کوشش کی، تاکہ اس چنگاری کو آگ میں بدل دیا جائے لیکن ہماری بہادرقوم نے جس طرح مغرب کو تاریخی شکست دی ہے، اسی طرح داعش بھی اپنے منصوبوں کو خاک میں ملتا اور اپنی ناکامی کو کھلی آنکھوں دیکھ رہی ہے۔

Author

Exit mobile version