اسلام کے مقدس دین نے مسلمانوں کو ایک عمارت کی مانند قرار دیا ہے، اس عمارت کی ہر اینٹ امت مسلمہ کا ایک فرد ہے جو دوسری اینٹ کو مضبوط اور سہارا دیتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
«انّ المُٶمَنَ لِلمٶمِنِ کَالبُنیَانِ یشُدُّ بَعضُهُ بَعضاً»
ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو قوت پہنچاتا ہے۔
عالم اسلام میں مسلمان ایمان کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں، اسلامی بھائی چارے کے مقابلے میں رنگ، نسل، قبیلہ، زبان یا علاقہ اہم نہیں، لیکن دشمن مختلف طریقوں سے اس گہرے اور اٹوٹ رشتے کو ختم کرنے اور مسلمانوں کے اتحاد کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اسلامی بیداری کے بعد جب مسلمانوں کو اپنے اصل دشمنوں کا علم ہوا تو امریکہ نے مسلمانوں کی اس تحریک کو روکنے کی کوشش کی اور اس کے لیے انہوں نے مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنے کو اپنا بنیادی مقصد بنا لیا۔
تفرقہ بازی، اسلامی ممالک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی کوشش، دہشت گرد گروہوں کی تشکیل اور حمایت، اسلامی ممالک پر حملے اورعالم اسلام کے بعض ممالک پر پابندیاں لگانے جیسی سازشوں کے ذریعے اسلامی ممالک کو کمزور کرنا دراصل امریکہ کے اہم مقاصد میں شامل ہیں۔
بیک وقت دہشت گرد گروہوں کی تشکیل اور ان کی حمایت، یہ مسلمانوں کو تقسیم کرنے اور اسلامی ممالک کو کمزور کرنے کا بہترین طریقہ ہے، اسی لیے امریکہ نے داعش کو بنایا اور اس کی مسلسل حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔
مذہبی اختلافات کو ہوا دینا، ناجائز اور سیکولر حکومتوں کا دفاع کرنا، افواہیں پھیلانا، شکوک و شبہات پیدا کرنا، مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعلق و حمایت سے روکنا، معمولی اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا، متعصب اور خود غرض لوگوں کی حمایت کرنا، یہ سب کام مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنے کی امریکی حکمت عملی میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں اور اب یہ ذمہ داریاں داعش کو سونپ دی گئی ہیں۔
اس سرطانی غدود کے بنانے والوں اور حامیوں کا واحد مقصد، مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اوراختلافات پیدا کرنا، عالمی برادری میں دین اسلام کو مورد الزام ٹھہرانا اور صہیونی غاصب حکومت کی شرارتوں اور برائیوں کو خطے اور دنیا کے عوام کے ذہنوں سے نکال دینا ہے۔
وہ گروہ جس نے چند سال پہلے ’’عراق اور شام میں اسلامی خلافت‘‘ کے نام سے اسلامی دنیا کے کچھ حصوں پر حملہ کیا اور بعد میں امریکہ کی قیادت اور صہیونیوں کی بھرپور حمایت سے افغانستان میں داخل ہوئے اور افغان مسلمانوں کے مابین موجود اتحاد و اتفاق کو ختم کر کے اختلافات پیدا کرنے کی بہت کوششیں کیں۔
اگرچہ یہ گروہ دینی اور شرعی رہنما اصولوں کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن اگر ہم صرف اس ایک چیز پر توجہ دیں کہ انہوں نے مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تو پس پردہ حقیقت سب پر عیاں ہو جائے گی۔