داعش نامی وبا! انیسویں قسط

ابو هاجر الکردی

اس نشیب و فراز سے بھرپور واقعات کے تسلسل میں، ہم اب عراق میں داعش کی مسلسل خیانتوں اور اُن مظالم کا ذکر کریں گے جو انہوں نے سرزمین الرافدین میں اہلِ سنت کے خلاف انجام دیے۔

عراق میں داعش کی خیانتوں کے نتائج تصور سے بھی بڑھ کر اور خیالات سے زیادہ دردناک تھے۔ داعش کا عراق میں اثر و رسوخ نہ صرف عراقی قوم کے لیے ایک المناک سانحہ تھا، بلکہ یہ اہلِ سنت مجاہدین اور ان جماعتوں کے لیے بھی ایک سنگین نقصان ثابت ہوا، جو اس سے پہلے ظلم، قبضے اور فاسد حکومتوں کے خلاف جہاد کر رہے تھے۔ داعش نے احیائے خلافت کے جھوٹے دعووں کے ذریعے اہلِ سنت اور حقیقی جہادی تحریکوں کو شدید نقصان پہنچایا:

۱۔ سنی مجاہدین کے اتحاد سے خیانت:

داعش کے ظہور سے قبل، اہلِ سنت کی مختلف جماعتیں جیسے جیش المجاہدین، انصار الاسلام، جیش نقشبندیہ وغیرہ عراق کی مرکزی حکومت یا قابضین کے خلاف سرگرم تھیں۔ لیکن داعش نے ان جماعتوں کو کافر قرار دے کر مرتد اور دشمن کہا، اور ان میں سے بہت سے افراد کو قتل یا جلاوطن کر دیا۔

داعش کی یہ سخت گیر پالیسی کا ہی نتیجہ تھا کہ اہلِ سنت کا اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے خلاف موجود اتحاد ختم ہو گیا۔

۲۔ اہلِ سنت کو کچلنے کے لیے بہانہ فراہم کرنا:

داعش نے اپنے انتہا پسندانہ اور پرتشدد اعمال جیسے عوامی مقامات پر پھانسیاں دینا، مساجد و مزارات کو تباہ کرنا اور اقلیتوں کے خلاف مظالم کے ذریعے جان بوجھ کر اسلام کا چہرہ دنیا بھر میں مسخ کیا۔

یہ سب کچھ خطے کے ممالک اور غیر ملکی طاقتوں کے لیے ایک ایسا بہانہ بن گیا کہ وہ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے نام پر اہلِ سنت کے علاقوں پر بمباری کریں اور انہیں نشانہ بنائیں۔

۳۔ اہلِ سنت کے علاقوں پر قبضہ اور عوام کا استحصال:

داعش نے موصل، فلوجہ، رمادی اور تکریت جیسے علاقوں پر قبضہ کر کے درحقیقت سنی آبادی والے علاقوں کو اپنے تسلط میں لے لیا، لیکن یہ قبضہ سنی عوام خدمت کے لیے نہیں، بلکہ ایک ظالمانہ اور جابرانہ حکومت مسلط کرنے کے لیے تھا، جو حقیقی اسلام سے کوئی مماثلت نہیں رکھتی تھی۔

بہت سے اہلِ سنت علماء، قبائل اور عام لوگ جنہوں نے داعش کی مخالفت کی، انہیں یا تو قتل کر دیا گیا یا شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

۴۔ جہاد کی ساکھ کو نقصان پہنچانا:

داعش کی پرتشدد کاروائیوں کی وجہ سے، نہ صرف خطے کے عوام بلکہ پورے عالمِ اسلام میں بہت سے لوگ ان کے ظاہری اسلامی نعروں سے بدظن ہو گئے۔ داعش نے جہاد، خلافت، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسی دینی تصورات کو بگاڑ کر، انہیں اپنی وحشیانہ حکمرانی اور قتل و غارت کے ہتھیار بنا دیا۔

۵۔ ایران اور مغربی طاقتوں کے نفوذ کا راستہ ہموار کرنا:

اگرچہ داعش نے ایران سے دشمنی کا دعویٰ کیا، لیکن عملی طور پر اس نے عراق اور شام میں ایران کے اثر و رسوخ کو بڑھانے کی راہ ہموار کی۔ داعش کے خوف سے کئی علاقے ایران سے وابستہ ملیشیاؤں کے قبضے میں چلے گئے۔ اسی طرح داعش کو ختم کرنے کے بہانے امریکہ کی قیادت میں بین الاقوامی اتحاد کی مداخلت نے، غیر ملکی افواج کی وسیع پیمانے پر واپسی کے لیے ایک جواز فراہم کر دیا۔

Author

Exit mobile version