داعش نامی وبا | چوتھی قسط

✍️ ابو ھاجر الکردی

#image_title

اگر ہم چاہیں کہ داعش کے جرائم کے بارے میں تفصیل تحریر کریں تو شاید کتابوں کی تعداد درجنوں جلدوں تک پہنچ جائے، کیونکہ اس شیطانی لشکر اور بدنام گروہ کے پیروکاروں نے اتنی خیانتیں کی ہیں کہ جس کی کوئی انتہا نہیں۔

اس بے رحم فرقے کا شر اس قدر وسیع ہے کہ پتہ نہیں لگتا کہ کہاں سے شروع ہوتا ہے اور کہاں ختم ہوتا ہے۔

دنیا کے ہر کونے میں جہاں بھی مسلمان رہتے ہیں، ان غدار خائنین کے جرائم کے برے اثرات وہاں دیکھے جا سکتے ہیں، یہ عراق سے لے کر ہندوستان تک اور کئی براعظمں میں پھیل چکے ہیں۔

دنیا کے ہر کونے میں جہاں بھی ان کا نام و نشان تھا، وہاں سوائے بری یادوں، وحشتوں اور مظالم کے اور کچھ نہیں بچا۔

اگرچہ ان لوگوں کے بارے میں مکمل اور جامع انداز میں لکھنا مشکل ہے لیکن ایک مسلمان اور تجربہ کار فرد کی حیثیت سے ان کے بارے میں کچھ الفاظ لکھنے پر مجبور ہوں۔

داعش کا ظہور کیسے ہوا؟

داعش نے اپنے ظہور سے لے کر آج تک دنیا کے سامنے اپنے دو مختلف چہرے ظاہر کیے ہیں، لیکن ان کے ظہور کے آغاز میں ان کے اندر اتنا انحراف دیکھنے میں نہیں آیا۔

میں جو لکھنا چاہتا ہوں وہ اس غدار اور بے رحم گروہ کا ۲۰۱۴ء کے بعد کا چہرہ ہے۔

اس سے قبل کہ خیانت اور غداری کے ابتدائی سالوں کی طرف لوٹیں، اختصار کے ساتھ چند نکات کا ذکر کروں گا کہ داعش کیسے وجود میں آئی۔

داعش عراق میں القاعدہ کے رہنما شیخ ابو مصعب زقاوی کی جانب سے "جماعت توحید والجہاد” کے نام سے ۲۰۰۳ء میں عراق پر حملے کے دوران صلیبیوں کے خلاف جنگ کے لیے تشکیل دی گئی۔

اس گروہ میں وسعت کئی مراحل میں آئی اور عراق کے کئی شہروں میں اس نے عسکری سرگرمیاں شروع کیں۔

۲۰۰۶ء میں شیخ ابو مصعب زرقاوی نے عراق میں اہل سنت کے تمام مسلح گروہوں کے اتحاد کے لیے مجاہدین شوریٰ کے قیام کا اعلان کیا۔

امریکی افواج کے ہاتھوں شیخ زرقاوی کی شہادت کے بعد، ابو عمر البغدادی نے اس گروہ کی قیادت سنبھال لی۔

انہیں بھی ۲۰۱۰ء میں امریکی افواج نے شہید کر دیا اور ابو عمر بغدادی اور ابو حمزہ مہاجر کی شہادت کے بعد ابو بکر بغدادی داعش کا سربراہ بن گیا۔

Author

Exit mobile version