داعش نے شیخ خالد السوری کی شہادت کے بعد شمالی شام میں بڑی تعداد میں علاقائی کمانڈرز اور سرگرم رہنماؤں کو قتل کیا۔
مذکورہ افراد میں احرار الشام کی تحریک میں اہم کردار ادا کرنے والے شیخ ابو مقداد دمشقی بھی تھے جو بغدادی باغیوں کی کاروائیوں میں شہید ہوئے۔
انہوں (داعشیوں) نے اپنے زہریلے خنجروں سے سینکڑوں کمانڈروں اور ہزاروں مجاہدین کو شہید کیا۔
داعش کے پیروکاروں کے مظالم اس قدر تھےکہ انہوں نے ہمارے بعض قریبی ساتھیوں کو دردناک اور ظالمانہ طریقے سے شہید کر دیا۔
۲۰۱۴ء کے اختتام پر صوبہ درعا سے تعلق رکھنے والا ایک مجاہد (ابو رضوان درعاوی) کہ جو جبہۃ النصرہ کے مجاہدین کی صفوں میں سرگرم تھا، اور شروع سے ہی اسی گروہ کا ساتھی تھا، پراسرار طور پر لاپتہ ہو گیااور پانچ روز بعد اس کی لاش ملی اور اس کی شہادت کے حوالے سے معلومات ملیں کہ وہ داعش کے ہاتھوں شہید ہوا۔
داعش کے سخت گیر پیروکاروں نے رضوان درعاوی شہید کو انتہائی دردناک انداز میں شہید کیا۔
ان کی شہادت کی داستان نے سب کو چونکا کے رکھ دیا، کیونکہ اس وقت تک کسی نے بھی اس طرح کی مشکل صورتحال کا سامنا نہیں کیا تھا۔
خلافت کے جھوٹے پیروکاروں نے پہلے اسے رسّی سے باندھا، اس کے ناک اور کان کا کچھ حصہ کاٹا، اس کے ناخن اکھاڑے اور اس کا سینا گرم لوہے سے چیر ڈالا۔
اسی طرح اس کی دائیں ٹانگ کا ایک حصہ بھی کٹا ہوا تھااور لاش کو ایک تاریک کمرے میں پھینکا گیا تھا۔
ابو رضوان شہید قرآن کریم کے حافظ اور الیکٹریکل انجینئرنگ کے طالب علم تھے، انہوں نے عرب بہار کے آغاز کے بعد بشار الاسد کے خلاف مجاہدین اور عسکری تحریکوں میں شمولیت اختیار کی۔
ابو رضوان کی شہادت کے بعد ۴ نومبر ۲۰۱۴ء کو اس کے ساتھیوں نے شمالی حلب میں داعش کے خلاف اس سانحے کا بدلہ لینے کے لیے کاروائی شروع کی اور ۱۳ گھنٹوں کی جنگ کے بعد تقریبا ۸ لوگ ہلاک کیے اور ۳ زندہ پکڑ لیے گئے۔ بعد میں ان قیدیوں کا مجاہدین کے قیدیوں سے تبادلہ کیا گیا۔