داعش کا سفر؛ عراق میں ظہور سے لے کر افغانستان میں شکست تک!

فرہاد فروتن

وہ گروہ جو داعش کے نام سے معروف ہے، ایک انتہاپسند اور متشدد گروہ ہے جو مشرق وسطیٰ کے بحرانوں اور عدم استحکام کے مرکز سے ابھرا، یہ گروہ سب سے پہلے عراق میں ظاہر ہوا اور مرکزی حکومت کی کمزوری، سیاسی خلاء اور مذہبی و نسلی بحرانوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے وسیع علاقے اپنے کنٹرول میں لے لئے۔

لیکن ان کے مطالبات صرف عراق تک محدود نہیں رہے؛ بلکہ بہت جلد انہوں نے اپنی کوششیں شام اور پھر دیگر
علاقوں میں، خاص طور پر افغانستان اور وسطی ایشیا تک پھیلائیں۔

افغانستان میں داعش کا ظہور صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا گیا، اس گروہ نے جمہوری نظام اور ان کے غیر ملکی آقاؤں کی موجودگی میں، سیکیورٹی کے ابتر صورت حال، داخلی مسائل اور علاقائی بحرانوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے قدم جمانے کی کوشش کی، داعش نے اپنے ظالمانہ حربوں جیسے خودکش حملوں، بڑے پیمانے پر قتلِ عام اور دہشت گردانہ کارروائیوں کے ذریعے اپنے وجود کو ثابت کرنے کی کوشش کی، مگر کامیاب نہ ہو سکی۔

امارت اسلامی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی داعش کی طاقت میں کمی آ گئی؛ جہاں بھی اس نے سر اُٹھایا، اسے کچل دیا گیا اور ان کے تمام منصوبے ناکام ہو گیے۔ اس لئے انہوں نے مجبوراً ہمسایہ ممالک میں پناہ لی تاکہ وہاں سے اپنے تخریبی کاروائیاں اپنے آقاؤں کی خوشنودی کے لیے کبھی کبھار انجام دینے لگے۔

عراق اور شام میں دولت اسلامی(داعش) کے نام سے اس گروہ کا ظہور معاصر دنیا کے لیے ایک بڑے سیکیورٹی اور سماجی چیلنجز میں سے تھا، اس گروہ نے ابتدائی طور پر عراق کی سیاسی، مذہبی اور سماجی بحرانوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے آپ کو طاقتور بنایا اور پھر خفیہ انٹیلیجنس کی مدد سے اپنی طاقت کو افغانستان تک بڑھانے کی کوشش کی۔

لیکن داعش کو معلوم نہ تھا کہ وہ عوامل جو عراق میں اس گروہ کی طاقتور ہونے کا سبب بنے، افغانستان میں بہت مختلف ہیں اور یہاں اسے سخت شکست کا سامنا کرنا پڑے گا؛ ہم مختصر طور پر کچھ نکات ذکر کریں گے اور ان کا افغانستان کی صورتحال سے موازنہ کریں گے۔

۱۔ دونوں ممالک کی مرکزی حکومتوں کا فرق:

عراق میں مرکزی حکومت کی کمزوری داعش کی ترقی کی اصل وجہ تھی، بعث حکومت کے خاتمے اور صدام حسین کے اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد، عراق کا حکومتی ڈھانچہ بہت کمزور ہوگیا تھا۔ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے درمیان شدید اختلافات اور وسیع فساد کے وجود نے ایسے حالات پیدا کیے کہ داعش نے عراق کے مختلف علاقوں میں آسانی سے اپنا اثر و رسوخ بڑھا لیا۔

عراق کی حکومت کی کمزوری اتنی زیادہ تھی کہ ۲۰۱۴ء میں جب داعش نے موصل شہر پر قبضہ کیا، حکومتی فورسز کی طرف سے کوئی سنجیدہ مزاحمت سامنے نہیں آئی۔

لیکن افغانستان میں سابقہ جمہوری نظام کے خاتمے اور امارت اسلامی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد ایک طاقتور مرکزی حکومت تشکیل پائی، اس حکومت نے ملک کو مختلف بحرانوں سے نکال کر یکجہتی کی جانب گامزن کیا اور اس سرزمین کے تمام دشمنوں، بشمول داعش، کو ختم کردیا۔ امارت اسلامی نے اپنے طویل المدتی ٹارگٹڈ جنگوں کے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف علاقوں میں کنٹرول کی صلاحیت دکھائی اور دیگر گروہوں کی طرح تقسیم نہیں ہوئی۔

۲۔ دونوں ممالک کی قومی اور فکری ڈھانچے کا فرق:

عراق میں شیعہ اور سنیوں کے درمیان شدید اختلافات کا وجود خاص طور پر امریکی حملے کے بعد اہل سنت کی عدم اطمینان کا باعث بنے، داعش نے اس عدم اطمینان کا فائدہ اٹھایا اور اپنے آپ کو اہل سنت کا محافظ ظاہر کیا۔
اس کے برعکس افغانستان میں مذہبی و مسلکی اختلافات کا وجود نہیں ہے۔ معاشرے کا معتد بہ حصہ سنی مسلمان ہیں اور اقلیتی گروہوں کو بھی مذہبی آزادی کا حق دیا جاتا ہے، افغانستان کا سماجی و معاشرتی ڈھانچہ اسلامی ہے اور اسلامی اخوت پر مبنی ہے، جس نے داعش کے اثر و رسوخ کو روکا ہے۔

۳۔ مالی وسائل تک رسائی میں فرق:

داعش نے عراق میں تیل پر کنٹرول حاصل کر کے وسیع پیمانے پر مالی وسائل حاصل کیے، عراق دنیا کے بڑے تیل پیدا کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے اور داعش نے اپنے زیر قبضہ علاقوں (جیسے موصل اور کرکوک سے ۲۰۱۴-۲۰۱۶ تک) میں تیل کی غیر قانونی فروخت کے ذریعے بڑی رقم کمائی؛ لیکن افغانستان میں داعش کو ایسی کوئی بڑے مالی وسائل نہیں ملے، مالی وسائل کی کمی افغانستان میں داعش کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گئی۔

۴۔ دونوں ممالک کے میڈیا کے اثرات کا فرق:

داعش نے عراق میں پیشہ ورانہ تشہیر کے ذریعے عالمی سطح پر بہت سے حامی جمع کیے، اس گروہ نے فلموں اور میڈیائی پروپیگنڈے کے ذریعے لوگوں کو اپنی طرف مائل کیا، مگر افغانستان میں اگرچہ زرخرید میڈیا نے داعش کی میں تشہیر کی، لیکن خود اس گروہ کی میڈیا تک رسائی بہت محدود تھی۔

مجموعی طور پر داعش کی طاقت عراق میں اس ملک کی سیاسی اور سماجی حالات کی وجہ سے تھی، مگر افغانستان میں یہ حالات بالکل مختلف ہیں۔ اسلامی امارت کی داعش کے ساتھ دشمنی اور مذہبی اختلافات کا نہ ہونا، اسی طرح مالی وسائل نہ ہونا اس گروہ کی توسیع کی راہ میں رکاوٹ بن گیا ہے۔

Author

Exit mobile version