داعش کا فکری ڈھانچہ | پانچویں قسط

برکت‌اللہ دانشور

۲۔ تکفیر میں جلد بازی:

دوسری بات یہ ہے کہ جلدی فیصلے کرنا اور فوراً کسی پر حکم لگانا ہے، کبھی کبھی انسان حیران ہوتا ہے کہ کیا انسان اتنی بھاری ذمہ داری برداشت کر سکتا ہے؟ یا پھر اس بوجھ تلے دب جائے گا؟

اس سے بھی زیادہ مشکل یہ ہے کہ قاضی کے منصب پر بیٹھنا، دوسروں کے بارے میں فیصلہ کرنا اور سخت حکم جاری کرنا، سزائیں یکساں اور ایک ہی سطح پر رکھی جائیں، جرم کی نوعیت پر کوئی توجہ نہ دی جائے اور سب کو ایک ہی جگہ، صحرائی عدالت میں، ایک سخت سزا کا مستحق قرار دیا جائے۔

یہ ظلم کی آخری شکل ہے، لوگ ایسے تنگ حصار میں ڈال دیے جاتے ہیں جہاں نہ دفاع کا موقع ملتا ہے، نہ دلیل دینے کا اور نہ اپنی زندگی بچانے کی کوئی امید ہوتی ہے، بس موت کے انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں۔

جس دن سے داعش ایک گروہ کے طور پر سامنے آیا، بے شمار خون بہایا ہے، کئی خاندانوں سے خوشیاں چھین لیں، بے شمار افراد کو بلا وجہ زندگی کی نعمت سے محروم کرڈالا، ان لوگوں میں رحم نام کی کوئی چیز نہیں، نہ یہ سوچتے ہیں کہ جب ایک شخص کو قتل کیا جائے تو اس کے خاندان کا کیا بنے گا؟

اور اگر کوئی ان سے سوال کرے کہ کیوں قتل عام کرتے ہو؟ اس کا کیا جواز ہے؟ تو وہ صرف یہ کہتے ہیں کہ جو لوگ مارے گئے وہ "حق پر نہیں تھے”، حتیٰ کہ وہ خود کو سب سے بڑے قاضی سمجھتے ہیں۔

وہ لوگ جو انتہاپسندی میں گہری جڑیں رکھتے ہیں، جو قتل اور خونریزی کو بڑھاوا دیتے ہیں، وہ کیسے خلافت کا دعویٰ کر سکتے ہیں؟ یا عام لوگوں کے ساتھ مہربانی کا سلوک کیسے کرسکتے ہیں اور انہیں کیسے امن کا یقین دلا سکتے ہیں؟

۳۔ خلافت اسلامی کا دعویٰ یا ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے بہانہ؟

اسلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخری اور منتخب کردہ دین ہے جو انسانوں کی خوشحالی، بقاء اور انسانیت کی دائمی کامیابی کے لیے بھیجا گیا ہے تاکہ انسان آخرت میں بھی کامیاب ہو۔ دینِ اسلام کی تمام تر توجہ اس بات پر ہے کہ انسان کو معتدل اور متوازن دینی تعلیمات کے ذریعے ایک صحت مند، صالح اور فطری زندگی گزارنے کا طریقہ دکھایا جائے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی مقصد کے لیے مبعوث ہوئے اور اخلاقی ترقی، شخصیت کی تربیت اور عقل کی پرورش کو اہمیت دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جامع ارشادات میں فرمایا: "میں اخلاق کو مکمل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں۔”

مکہ کے شہر میں، جو زمین اور آسمان کے درمیان اتصال کا نقطہ تھا اور جہاں بیت اللہ شریف واقع تھا، فترتِ وحی اور انقطاع کے طویل دور میں بت پرستی اور بتوں کی عبادت کے عذاب نے عبادت اور بندگی کی جگہ پر اپنی جڑیں پکڑ لی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کے باطن کی اصلاح کے لیے اپنا مشن شروع کیا، تاکہ دلوں کو توحید کی روشنی سے منور کریں اور ربوبیت اور تقدس کی وسیع فضا میں واپس لے آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوتی جنگ آہستہ، لیکن ثابت قدمی اور ان تھک محنت سے شروع کی۔

گمراہی اور ضلالت کے وسیع اور مختلف جالوں، جاہلیت کے طویل غلبے اور انسان کی فکری و جسمانی غلامی کے باوجود، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچانک ہتھیار نہیں اٹھائے اور نہ ہی دین کے پھیلاؤ کے لیے افراد کو فوری طور پر تیار کیے، بلکہ آہستہ آہستہ، لیکن پختہ عزم کے ساتھ اصلاح کی راہ اپنائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دلوں پر محنت کی، برائیوں کو عیاں کیا اور اچھائیوں کو واضح کیا تاکہ وہ لوگ جن کی فطرت پاک، ضمیر سالم اور شعور بیدار ہو، حق کے راستے پر آجائیں اور دین کی طاقت کے مضبوط ستون بنیں۔

اس محنت پر تیرہ سال کا عرصہ لگا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انفرادی کوششیں اثرانداز ہوں، ایک گروہ ایثار کرنے والوں اور مخلص افراد کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نورِ رسالت کی طرف متوجہ ہو اور آہستہ آہستہ اس بات کے لیے تیار ہو کہ دین کے قیام کے لیے ایک نئے مرحلے میں داخل ہوں اور باطل کے خلاف براہ راست مقابلے کے میدان میں قدم رکھیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے ایک طویل تربیتی اور تعلیمی مرحلے کے بعد، ذہنوں اور دلوں کی صفائی، انسانی کدورتوں اور فکری جاہلیت سے نجات، اور غلامی کی زنجیروں سے آزادی کے بعد فیصلہ کیا کہ اسلام کو ایک برتر، آخری اور عادل دین کے طور پر ظاہر کریں، انہوں نے خود کو اس نئے دین کا پیروکار قرار دیا اور مدینہ کے شہر میں دین کا قیام عمل میں لایا۔

Author

Exit mobile version