داعش کا فکری ڈھانچہ! | پہلی قسط

برکت الله دانشور

انسان مشترکہ کوششوں اوراجتماعی سرگرمیوں سے ایسی تبدیلیاں اورانقلاب پیدا کر سکتے ہیں جو مستقل اور پائیدارہوں، کیونکہ انفرادی کوششیں زیادہ کارگر نہیں ہوتیں، ان کا دائرہ کار اور رسائی محدود ہوتی ہے۔

ایسے گروہ مختلف شعبوں اور میدان عمل میں موجود اور فعال ہیں جواپنے اپنے مختلف مقاصد تک پہنچنا چاہتے ہیں، ان میں سے چند گروہوں کی سرگرمیاں مثبت اور فائدہ مند ہیں، لیکن بعض گروہوں کے مقاصد منفی اور نقصان دہ ہیں۔

بہت سے لوگ سیاست کی باگ ڈور سنبھالنا چاہتے ہیں اور ایسے معاشرے کی تلاش میں ہیں جس پر وہ غلبہ حاصل کر سکیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے یہ لوگ ہر طرح کے کام، سرگرمیوں کو کسی بھی شکل میں سرانجام دینے اور ہر قسم کے اخراجات اٹھانے کے لیے تیار ہوتے ہیں اور پھر دیگرافراد کو اس طرح متاثر کرتے ہیں۔

ان میں سے ایک گروہ داعش ہے، انہیں میدان عمل میں آئے ہوئے چند سال ہوئے ہیں، لیکن ان کی حقیقت انتہائی بدصورت اور تباہ کن ہے۔

گذشتہ کچھ سالوں میں سب داعش اور ان کے وحشی اور خونی مظالم سے واقف ہو چکے ہیں اور بہت کم ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ اس گروہ کا کام کیا ہے، ان کا مقصد کیا ہے اور ان کی وجہ سے کون سے تلخ اور کس طرح کے دل دہلا دینے والے مظالم وقوع پذیر ہوچکے ہیں۔

اپنے مقاصد کے حصول کے لیے، داعش کبھی بھی کسی طرح کی ظالمانہ و سفاکانہ سرگرمیوں سے نہیں ہچکچاتی، وہ معصوم لوگوں اور معاشرے پر کیے جانے والے جرائم کی پرواہ نہیں کرتے، داعش کی طرف سے شہریوں کو لاحق سب سے چھوٹا خطرہ یہ ہے کہ بے گناہ عوام اپنی جانوں و مالوں کے حوالے سے نہ پہلے مامون تھے اور نہ اب ہیں۔

یہ تمام سرگرمیاں ان خیالات اور نظریات کا نتیجہ ہیں جو اس گروہ کے افراد کے ذہنوں میں انڈیلے گئے ہیں اور وہ یہ کہ وہ صرف اپنے آپ کو حق و سچ پر سمجھتے ہیں اوراپنے سوا تمام عالم اسلام پر کفر کے ٹھپے لگاتے ہیں۔ وہ صرف اپنے آپ کو حق و سعادت کی راہ پر گامزن سمجھتے ہیں اور دوسروں کو باطل و بدبختی کی راہ پر گامزن سمجھتے ہیں۔

کیونکہ انسان افکار و نظریات کا مجموعہ ہے جو اس کی شخصیت اوراس کی ان تمام صلاحیتوں کو نکھارتی ہے جو اس نے اپنے لیے منتخب کی ہوئی ہوتی ہیں۔ یہ ارتکاز کرتا ہے، بعض اوقات ان نظریات کی تطبیق و فعالیت صحیح شکل اختیار کر لیتی ہے جو انسان کو مثبت سرگرمیاں دکھانے اور تبدیلی لانے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔

لیکن بعض اوقات بدقسمتی سے اردگرد کے ماحول، داخلی و خارجی عوامل کی وجہ سے انسان غلط راستے کا انتخاب کر لیتا ہے اور تباہی اور ذلت کا شکار ہو جاتا ہے۔

جاری ہے۔۔۔!

Author

Exit mobile version