مضمون کی پہلی قسط میں ہم نے کہا کہ کسی بھی سیاسی اور مذہبی تحریک کے تسلسل اور بقا کے لیے لوگوں کو مائل کرنا سب سے بنیادی عنصر ہے، یہی وجہ ہے کہ داعشی تکفیری تحریک بھی دعوتی پروپیگنڈے کے ذریعے لوگوں کو اپنی تنظیم کی طرف راغب کرنے کی کوشش کررہی ہے، اس قسط میں، ہم داعش کی جانب سے لوگوں کو اپنی گروہ میں بھرتی کرنے کے مختلف طریقوں کا ذکر کریں گے۔
۱۔ اقتصادی محرکات:
ان طریقوں میں سے، معاشی حوصلہ افزائی بھرتی کے لیے سب سے اہم اور موثر ذریعہ ہے۔ داعش بہت زیادہ تنخواہیں دے کرنوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرتی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ وہ نوجوان جوغربت، ناخواندگی اور بے روزگاری کا شکار ہیں اوربہتر مستقبل سے ناامید ہیں، وہ داعشی گرو میں شامل ہوجاتے ہیں۔
تاجکستان اس سلسلے میں ایک واضح مثال ہے، جس کا شمار وسطی ایشیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے، جس کی آبادی ۱۰ ملین افراد پر مشتمل ہے، غربت کی وجہ سے لاکھوں تاجک شہری مختلف ممالک، خاص طور پر روس میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق ۲۰ لاکھ سے زیادہ مرد تاجکستان سے باہر مزدوری کرتے ہیں اور اس طرح یہ لوگ داعش کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔
داعش اکثرمعاشی نقطہ نظر سے، معاشرے کے سب سے زیادہ کمزور اور محروم طبقوں کو اپنے گروہ میں شامل کرنے کے لیے انتخاب کرتی ہے اورجو لوگ اس گروہ میں شامل ہوتے ہیں، وہ زیادہ تر معاشی مفادات کے حصول کے لیے شامل ہوتے ہیں۔
اگرچہ وسطی ایشیا کی عوام نے سوویت یونین کے دور میں ایسی ترقی حاصل کی جو ایشیا کے دیگرممالک سے زیادہ تھی، لیکن جلد ہی وہ خوشحالی و آسائش سے بھرپور زندگی سے محروم ہونے لگے، اس صورت میں یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ بہترمستقبل کے ساتھ ساتھ بظاہر مذہبی قیادت حاصل کرنے کے لیے وہ داعشی گروہ میں شامل ہوں۔
داعش کے شکار کا طریقہ یہ ہے کہ وہ مالی وعدوں کے ساتھ ساتھ، غربت اور معاشی مسائل میں گھرے نوجوانوں کو ایک آپریشنل فورس میں تبدیل کرنے کے لیے بھرپور پروپیگنڈے سے کام لیتی ہے۔
اسی لیے داعشی اپنے تربیتی مراکز میں نوجوانوں کو پیسوں کے ساتھ ساتھ، ان سے وعدے کرتے ہیں کہ ان کی شادیوں کا بندوبست بھی کریں گے۔
اقتصادی و معاشی محرکات کا طریقہ کار ان لوگوں کے لیے کارآمد ہے، جومال و دولت نہ ہونے کی وجہ سے مجبور ہیں، اگرچہ غریب لوگ بہت جلد شکار ہو جاتے ہیں، لیکن امیر لوگوں کو بھی گھیرنے کا بھی ایک ذریعہ ہے۔
لہٰذا بے روزگار نوجوان اورمعاشرے کے نچلے طبقے جو معاشرتی رویوں سے تنگ اور مایوس ہیں اور فکری طور پر کمزور ہیں، انتہا پسند اور پرتشدد افکار و نظریات کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں، کیونکہ یہ لوگ نظریاتی طور پر داعش کے ساتھ مل کر معاشرے کے طبقات پر اپنا غصہ نکالتے ہیں۔