۲۔ داعش کا شدید پروپیگنڈہ
پروپیگنڈہ معاشرتی اقدار، عقائد، تصورات اور ذہنیتوں کی تبدیلی کے ذریعے، مختلف افکار کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ضروری اور موزوں حالات فراہم کر سکتا ہے۔
پروپیگنڈے کی طاقت اور قوت مفکرین کو یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ پروپیگنڈے بعض اوقات لوگوں سے اپنے مقدر کے انتخاب کا اختیار چھین لیتے ہیں اور ان کے افکار پر حکمرانی کرنے لگتے ہیں۔
مذکورہ عنصر داعش کے کاموں میں سرفہرست ہے، جو در حقیقت اس تکفیری تحریک کے نظریات کی ایک اہم ترین ضرورت ہے۔ اس لیے داعش کا پروپیگنڈہ لوگوں کو اپنی جانب راغب کرنے میں بہت مؤثر ثابت ہوا ہے۔
داعش ناصرف یہ کہ اپنے جھوٹے اور بے بنیاد پروپیگنڈے میں مصروف ہے بلکہ رسمی طور پر اپنے پیروکاروں سے بھی یہ مطالبہ کرتی ہے کہ داعش کے دہشت گردانہ افکار کا پروپیگنڈہ اسلام کے ایک اہم اور لازمی شعار کے طور پر کریں۔
اس بحث میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ جاننا چاہیے کہ آیا داعش کی جانب سے پیش کیا جانے والا پروپیگنڈہ سچ ہے یا جھوٹ۔ اگرچہ یہ ایک وسیع موضوع ہے اور اس کے کئی زاویے ہیں لیکن ہم اختصار کے ساتھ اسے چند سطروں میں بیان کریں گے۔
داعش ہمیشہ اپنے پروپیگنڈے کو وسعت دینے اور لوگوں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے بے بنیاد، جھوٹی اور غلط معلومات کا سہارا لیتی ہے۔ حریف گروہوں اور حکومتوں کو تو کمزور اور منحرف گردانتی ہے جبکہ اپنے دینی، اخلاقی اور معاشرتی انحرافات کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتی، حتیٰ کہ اپنی جماعت کو واحد اسلامی جماعت گرادنتی ہے۔
داعش اپنے بے بنیاد پروپیگنڈے کی تشہیر کے ذریعے ہمیشہ اپنی کامیابیوں کے بارے میں مبالغہ آرائی سے کام لیتی ہے، وہ اس طرح کہ ہمیشہ اپنے مالی اور جانی نقصانات کو حقیقت سے بہت کم تر کر کے دکھاتی ہے، تاکہ جنگجوؤں اور سپاہیوں کے حوصلے کمزور پڑ جانے یا ٹوٹنے سے بچے رہیں۔
داعش کی تکفیری جماعت جھوٹے اور بے بنیاد پروپیگنڈے کے ذریعے اپنی خلافت کے خوابوں کو واحد دار الاسلام سمجھتی ہے اور اس میں شمولیت ہر مسلمان کی اہم ترین اور کلیدی ذمہ داری گردانتی ہے۔
پس دوسرا طریقہ جسے داعش لوگوں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے اور بظاہر اس میں کسی حد تک کامیاب بھی ہو رہی ہے، وہ وسیع پیمانے پر بے بنیاد پروپیگنڈے کی طاقت ہے۔ اس مضمون کی آنے والی قسط میں ہم تیسرے عنصر (سوشل نیٹ ورکس کا استعمال) پر بحث کریں گے۔ ان شاء اللہ