جب داعشی خوارج کے امیر ابو عمر البغدادی نے ۲۰۰۷ء میں اپنی تنظیم (اسلامی ریاست عراق) کے عقائد یا منشور کو ۱۹ دفعات میں بیان کیا، تو اسی وقت اس گروہ کی سیاہ تاریخ میں کئی ایسی کاروائیاں موجود تھیں جو اس منشور سے متصادم تھیں۔ ان ۱۹ دفعات کا مطالعہ کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ یہ لوگ صرف خود کو ہی سچے مسلمان سمجھتے ہیں، اور دوسروں کو مرتد، مشرک اور کافر قرار دیتے ہیں۔ اسی لیے وہ بہت تیزی سے دوسروں کے تکفیر کی طرف جاتے ہیں، حتیٰ کہ مسلمانوں کو قتل کرنا اور ان کے مال و دولت کو لوٹنا بھی ان کے نزدیک جائز ہی نہیں بلکہ واجب سمجھا جاتا ہے۔
دیگر مسلمانوں کو قتل کرنے کے لیے انہوں نے قابض قوتوں کے ساتھ تعاون، سیکولر ازم اور اس جیسے دیگر عوامل کو ایک مناسب جواز بنایا ہے، تاکہ اس بہانے سے وہ مسلمانوں کے مال و متاع اور عزت و ناموس پر قبضہ کریں اور انہیں اپنا حق سمجھیں۔
اپنے منشور میں انہوں نے بار بار قابضین کا لفظ استعمال کیا ہے، جس سے بظاہر مراد اس وقت عراق میں موجود امریکی فوجی تھے، جو بلا شک و شبہ قابض تھے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ داعش خود کسی قابض قوت کی مخالف نہیں تھی، بلکہ وہ اسی قبضے کا ایک ایسا حصہ تھی، جو اسلام اور شریعت کے نام سے ان کے مفادات کے لیے غلط فائدہ اٹھا رہی تھی۔ اور یہ طرز عمل آج تک جاری ہے۔ ان کے خراسانی وارثین بھی اسی فارمولے کو علاقے میں، اور کسی حد تک افغانستان میں، لاگو کر رہے ہیں۔
اپنے منشور کی پہلی دفعہ میں لکھتے ہیں کہ ہم شرک کی تمام اقسام اور اس کے ظاہری مظاہر کو ختم کرنے کا عزم رکھتے ہیں، حالانکہ خود انہوں نے کئی مواقع پر اپنے یرغمالیوں سے کہا کہ اب تمہاری موت اور زندگی ہمارے ہاتھ میں ہے۔ انہوں نے متعدد افراد کو بغیر کسی مقدمے اور دلیل کے قتل کیا، اور ان کا قتل اس قدر بے رحمانہ تھا جیسے جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے، جس سے انسانی حرمت کو مکمل طور پر پامال کیا گیا۔
اسی نعرے کے تحت انہوں نے کئی قبریں اور اولیاء کے مزارات مسمار کیے، حالانکہ جب صحابہ کرامؓ نے ایران، شام اور مصر فتح کیا، تو کسی قبر کو نقصان نہیں پہنچایا، بلکہ حضرت ابراہیم اور حضرت دانیال علیہما السلام کے مزاروں کی تعظیم کی۔
اپنے منشور کی دوسری دفعہ میں انہوں نے شیعہ مسلک والوں کو رافضی کا لیبل دیا ہے، انہیں مشرک اور مرتد سمجھتے ہیں، اور اپنے متعدد حملوں میں شیعوں کو نشانہ بنایا ہے۔ وہ اپنے پیروکاروں سے کھلے عام کہتے ہیں کہ شیعہ مسلمان نہیں ہیں، اور ان کا قتل نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے۔ ان کا یہ فرقہ وارانہ فتنہ اور فساد ایک بار پھر اسلام میں خوارج کی وراثت کو تازہ کرتا ہے۔
اپنے منشور کی تیسری دفعہ میں انہوں نے جادوگر کو بھی کافر اور مرتد قرار دیا ہے اور اس کے قتل کو واجب کہا ہے۔ اس کے برعکس، اہلِ سنت کے گناہگار مسلمان جو قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے ہیں؛ اگرچہ وہ شراب نوشی، زنا یا چوری جیسے گناہوں میں مبتلا ہوں، تب تک کافر نہیں ہوتے جب تک کہ ان گناہوں کو حلال نہ سمجھیں۔
دسویں دفعہ میں وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے راستے میں جہاد، اندلس کے سقوط کے بعد مسلمانوں کے مقبوضہ شہروں کی آزادی کے لیے، ہر مسلمان فرد پر فرضِ عین ہے۔ ان کے مطابق کفر کے بعد سب سے بڑا گناہ اللہ کے راستے میں جہاد سے روکنا ہے۔
اگر ہم اس دعوے کو داعش کے عملی اقدامات کی روشنی میں دیکھیں، تو حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے جہاد کو اسلامی ممالک کی آزادی کے لیے استعمال نہیں کیا، بلکہ اپنی کارروائیوں کو کفار اور قابض قوتوں کے لیے تحفے میں تبدیل کر دیا۔ آزادی تو دور کی بات، انہوں نے خود یہ ماحول پیدا کیا کہ اسلامی ممالک کے باشندوں کو غلام بنایا جائے، ان کے اموال کو غنیمت سمجھا جائے، تاریخی اور ثقافتی ورثے کو لوٹا جائے، اور مسلمانوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے جو کفار سے بھی بدتر ہو۔
اپنے منشور کی 15ویں دفعہ میں وہ کہتے ہیں کہ ہم ان افراد اور گروہوں سے کوئی تعلق یا معاہدہ نہیں رکھتے جو قابض قوتوں کے ساتھ کسی قسم کا پیمان یا معاہدہ رکھتے ہوں، بلکہ ہمارے نزدیک ایسے تمام معاہدے مردود اور باطل ہیں۔
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ داعش خود عراق، شام اور افغانستان میں انہی قابض قوتوں کی آلہ کار اور مددگار رہی ہے۔ انہوں نے قابضین کے عسکری ساز و سامان اور انٹیلیجنس معلومات سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، عراق اور افغانستان میں انہی قابضین کے زیرِ سایہ بننے والی کٹھ پتلی حکومتوں سے ان کے روابط رہے ہیں۔ متعدد شواہد، افراد اور دستاویزات ایسے مقامات سے برآمد ہوئے ہیں جو انہی کٹھ پتلی حکومتوں کے انٹیلیجنس اداروں سے وابستہ تھے، اور حتی کہ ان کے بعض افراد کو باقاعدہ تربیت بھی دی گئی ہے۔
عراقی داعشیوں کے منشور کی ۱۶ویں دفعہ میں یہ کہا گیا ہے کہ باعمل اور مخلص علماء کی عزت و تکریم واجب ہے، مصیبت کے وقت ان کی مدد کی جائے گی، اور جو لوگ طاغوتی طریقوں پر چلتے ہیں یا اللہ کے دین میں دھوکہ دہی کرتے ہیں، ان کو رسوا کیا جائے گا۔
لیکن حقیقت میں، انہوں نے اپنی اسی دعوے کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے صرف افغانستان میں درجنوں باعمل اور مخلص علماء کو نشانہ بنایا اور شہید کیا۔ مزید یہ کہ کئی علماء کو پیسوں یا وعدوں کے ذریعے اپنے تابع بنا لیا، اور ان سے دینِ اسلام کی اصل تعلیمات کو بگاڑنے کا کام لیا۔
اپنے منشور کی ۱۷ویں دفعہ میں انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ ہم ان تمام افراد کی عزت کرتے ہیں جنہوں نے جہاد میں ہم پر سبقت حاصل کی ہے۔ ہم ان کے مقام و مرتبے کا احترام کرتے ہیں اور ان کے اہل خانہ اور مال و دولت کی حفاظت کے پابند ہیں۔
مگر اس شق کے برخلاف انہوں نے ایسی بے شمار کارروائیاں کی ہیں جن میں انہوں نے ان لوگوں کو نشانہ بنایا جن کا جہادی پس منظر خود داعش کے قیام سے بہت پہلے کا تھا۔ اس کی ایک نمایاں مثال شہید خلیل الرحمن حقانیؒ ہیں، جنہیں انہوں نے نشانہ بنایا، حالانکہ وہ ایک ممتاز اور مخلص جہادی شخصیت تھے۔
اگر ہم خارجی گروہوں کی تاریخ اور رویے پر نظر ڈالیں تو ان کی سرگرمیاں محض نعروں تک محدود ہوتی ہیں۔ حقیقت میں، وہ جس بات کے سب سے زیادہ پابند ہیں، وہ اسلام کو بدنام کرنا اور کفریہ مقاصد کو پورا کرنے کے لیے ہر قسم کا تشدد اور وحشت برپا کرنا ہے۔
داعشی شرعی کمیٹی کے ایک ذمے دار، عثمان بن عبدالرحمن، نے عراق میں اپنی تنظیم کی سرگرمیوں کو اس طرح بیان کیا ہے:
زمین پر توحید کو پھیلانا اور شرک کو ختم کرنا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ احکامات کے مطابق حکومت قائم کرنا (اور پارلیمانی و قومی مجالس کے قوانین کو مسترد کرنا)،
اسلامی حکمرانوں اور قاضیوں کو مقرر کرکے شرعی احکام نافذ کرنا، زکات اور دشمنوں سے حاصل شدہ مالِ غنیمت، صدقات اور بیت المال کی دیگر آمدنی اکٹھی کرنا، اور شہداء، فقراء، اور دیگر محتاج افراد کی امداد کرنا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان تمام بلند و بانگ دعوؤں کے باوجود ان کا طرزِ عمل ان وعدوں کی سراسر نفی کرتے ہیں۔
داعش کا مختلف جماعتوں اور گروہوں کے رہنماؤں کے ساتھ رویہ تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
پہلا گروہ: مرتدین پر مشتمل ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے قابض قوتوں سے معاہدے کیے یا ان کی طرف میلان ظاہر کیا۔ داعش ان کو اپنا دشمن سمجھتی ہے اور ان کے قتل کو واجب قرار دیتی ہے۔ ان کے لیے داعش کے اسلامی ریاست میں کوئی جگہ نہیں۔
دوسرا گروہ: وہ لوگ ہیں جنہیں گمراہ قرار دیا جاتا ہے، حالانکہ انہوں نے عملاً قابض قوتوں سے کوئی تعلق یا تعاون نہیں رکھا۔ لیکن چونکہ ان کے پیروکاروں میں بدعت اور گمراہی موجود ہے، اس لیے داعش انہیں بھی اپنے مخالفین میں شمار کرتی ہے۔
تیسرا گروہ: وہ لوگ ہیں جنہوں نے قابضین کے خلاف مزاحمت کی ہے اور جہادی پس منظر رکھتے ہیں۔ ان کے لیے داعش کا مؤقف یہ ہے کہ انہیں نصیحت اور اصلاح کے ذریعے قریب لایا جائے تاکہ وہ ’’عراق کی اسلامی ریاست‘‘ میں ضم ہوجائیں۔
جب ایک گروہ اپنے خود ساختہ منشور کا بھی پابند نہ رہا، تو اس سے یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ اسلام کی حقیقی تعلیمات سے وفادار ہو گا؟
آخرکار یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ داعش دینِ اسلام کے مقدس اصولوں کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ وہ ایسا ’’اسلام‘‘ چاہتی ہے جیسا کہ اس کے بانیوں نے ان کے لیے تیار کیا ہے؛ ایک ایسا تصورِ اسلام جس کے نام پر انہیں جہاد، خلافت، اسلامی ریاست اور نظام کے بہانے تشدد اور ظلم کا جواز ملے، اور وہ عام مسلمانوں کو دھوکہ دے سکیں۔
لیکن خوش قسمتی سے، وہ اپنے ان اسلام دشمن مقاصد میں روز بروز ناکام ہو رہے ہیں، اور اس کے مقابلے میں عوام روز بروز اسلام کے اصل چہرے اور حقیقی نظام سے واقف ہو رہے ہیں، اور ان کی دینی آگاہی میں اضافہ ہو رہا ہے۔