اکیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں عراق و شام کے دفاع اور احیائے خلافت کے نام پر داعش وجود میں آئی، یہ نام بھی دولت اسلامیہ عراق وشام کا مخفف ہے۔
یہ بہت خوشی کی بات تھی کہ یہاں خلافت قائم ہو، امت متحد، باہمی اختلافات کا خاتمہ اور اسلام کا غلط تصور ختم ہوجائے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمارا دین محفوظ اور ہم بحیثیت امت عزت و شوکت کے دور میں داخل ہوں، اس کے علاوہ مزید امیدیں بھی پیدا ہوگئیں جیسے اس خطے میں القاعدہ مغرب کا اولین ہدف تھا وہ کسی بھی صورت میں القاعدہ کو ختم کرنا چاہتے تھے، اس لیے ہمارا گمان تھا کہ اب القاعدہ پر دباؤ کم ہو جائے گا لیکن ہمیں کیا پتہ تھا کہ داعش خود القاعدہ پر دباؤ ڈالنے کے لیے ہی بنایا گیا ایک منظم منصوبہ تھا۔
اس کے علاوہ اقتصادی سطح پر امریکہ، یورپ، چین اور روس کو زیادہ تر خام مواد اسی خطے سے حاصل ہوتا ہے، لہذا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب یہ علاقہ داعش کے ہاتھ میں آیا تو ان ممالک کو معاشی لحاظ سے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑتا مگر ایسا ہوا نہیں۔
بہرحال داعش کی ابتدا سے پوری امت میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی، جس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں نے ان کے نعرے سنے تھے، وہ سمجھتے تھے کہ امت کے مسائل اور مشکلات کے حل کے لیے دیگر لوگ بھی پیدا ہوگئے ہیں، مگر کم وقت ہی گزر پایا کہ حقیقت آشکارا ہوئی اور داعش کا قول وعمل سب پر عیاں ہوگئے۔
ہم یہاں داعش کے حقیقی چہرے پر بحث کریں گے، ان کے نعروں سے ہمارا کوئی سروکار نہیں۔
داعش کے پاس عسکری لحاظ سے کوئی فوج نہیں، اگر کچھ افراد ہیں بھی تو وہ یورپ کے لہو و لعب میں پلے بڑھے نوجوان ہیں جنہیں عیش وعشرت کا لالچ دے کر عرب ممالک لاکر اور پھر وہاں سے جنگ کے میدان میں اتارا جاتا ہے، یہ ان کی عسکری قوت ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ یہ نوجوان اس فکر سے یہاں آتے ہیں یا پھر اسلام کے نام پر دھوکہ کھاکر یہاں آتے ہیں، انہیں حقیقت اس وقت معلوم ہوتی ہے جب یہاں سے نکلنے کا سارے راستے ان پر مسدود ہو جاتے ہیں۔ اب ان کے پاس اپنے کام کو جاری رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔
داعش کے پاس اقتصادی لحاظ سے کوئی ذریعہ آمدنی نہیں، یہ لوگ اسلامی ممالک کے قدرتی ذخائر کو چوری وغصب میں دیگر ممالک کے لیے راہ ہموار کرتے ہیں۔ جس کے بدلے یہ ممالک ان سے مالی تعاون کرتے ہیں، یہی ان کا واحد ذریعہ آمدنی ہے۔
یہ گروہ تہذیب، تمدن اور دینی لحاظ سے اسلام سے دور فقط نام نہاد نعروں پر قائم ایک گروہ ہے جس کا مقصد ایسی تہذیب و تمدن کو دنیا کے سامنے لانا ہے جو چودہ سو سال سے کسی نے دیکھا نہ سنا ہے، اسی میدان میں ان کے کارنامے دیگر سرگرمیوں سے زیادہ ہیں تاکہ اسلامی تمدن کو ختم کردیں اور عملی طور یہی کام یہ لوگ کر بھی رہے ہیں۔