معاصر استعمار اپنے روایتی طریقوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی شکلیں بدلتا ہے اور اس کی حکمت عملی بنانے والے کوشش کرتے ہیں کہ وہ نوآبادیاتی ممالک کی کمزوریوں، ضروریات اور خواہشات سے اپنا مکمل اور مؤثر فائدہ اٹھائیں، اسی بناء پر معاصر استعمار کی شکلیں پرانے طریقوں سے زیادہ خطرناک اور تباہ کن ہیں۔
کیونکہ ماضی میں مغربی- کفری استعمار زیادہ تر صرف جسمانی طاقت اور زور پر انحصار کرتا تھا، لیکن یہ کہ اسلام پسند حقیقی مجاہدین نے انہیں ہر میدان میں بار بار شکست دی اور اپنی ایمانی طاقت اور قوت دکھائی؛ تو انہوں نے سرد اور فکری جنگ کی پناہ لی، جس میں سے ایک طریقہ اسلام اور مسلمانوں کے نام پر تحریف شدہ، خارجی اور ایسی جماعتوں کا قیام ہے، جن کی ظاہری شکل اسلامی ہو، لیکن باطن میں یہ کفری سازشوں کے عامل اور استعمار کی ایسی چالیں ہوں، جن میں اسلامی نظریات اور جہاد کے پیروکار پھنس جائیں۔
تاریخ اسلام میں بارہا ایساہوا ہے کہ کفر نے مسلسل ایسی جماعتوں اور خیالات کے قیام پر سرمایہ کاری کی ہے، ان کی پرورش کی ہے اور ان کی بالواسطہ یا بلاواسطہ حمایت کی ہے، جن میں سے حالیہ داعش (جو اصطلاحاً عراق اور شام میں اسلامی ریاست کہلاتی ہے) نامی جماعت ہے، جس کو امریکہ اور برطانیہ کی انٹیلی جنس نیٹ ورک کی مالی اور فوجی مدد سے قائم کیا گیا تھا، جس کا مقصد عراق میں اپنی بدنامی یا شکست کو چھپانا تھا۔
یہ جماعت جو ۲۹ جون ۲۰۱۴ء کو عراق میں قائم ہوئی، اسلام کے نام پر اپنے وحشیانہ اقدامات کا آغاز کیا اور ان اقدامات کو مغربی اور امریکی میڈیا نے مقامی حامی میڈیا کی مدد سے بڑے پیمانے پر پیش کیا؛ اس خارجی جماعت کے بانی ابوبکر البغدادی کو القاعدہ کے مجاہدین کی صفوں سے اپنے مذموم اعمال کی وجہ سے نکال دیا گیا تھا اور مغربی قوتوں نے اس مسئلے کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔
یہ وہ وقت تھا جب امریکہ عراق میں مجاہدین کے ہاتھوں شکست کا سامنا کررہا تھا اور ابو مصعب الزرقاوی کی جانب سے اسے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، اس لیے امریکہ کو مجبوراً اپنی انتقامی کارروائیوں کے لیے ایک اجرتی جماعت کی ضرورت تھی، لہذا داعش اس کے لیے بہترین متبادل تھی۔ اس جماعت کے ذریعے امریکہ نے نہ صرف اپنی اسٹرٹیجک مقاصد کو عملی جامہ پہنایا، بلکہ اس نے ایران کے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے سنی نواز اسلامی تحریک کے رنگ میں اسے مسلح کیا اور عراق کے بڑے علاقے اور وسائل کو اس کے قبضے میں دے دیا؛ البتہ اس معاملے میں چند دیگر عوامل بھی شامل تھے:
۱۔ صدام حسین کی ’’بعث‘‘ پارٹی کا کردار:
عراق کے سابق کمیونسٹ صدر صدام حسین، جنہیں امریکہ نے اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا، ایک عسکری جماعت کے طور پر کمیونسٹ نظریات رکھنے والے افراد کو عراقی فوج میں شامل کیا تھا، مگر ایران کی شہہ پر شیعہ رہنماء ان کے خلاف تھے اور وہ حکومت سے بے دخل کردینے کے باوجود سکون میں نہیں تھے۔ امریکہ نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور غیر مستقیم طور پر کئی بعثی افسران کو داعش کی صفوں میں فوجی تربیت دینے والے اور کمانڈروں کے طور پر شامل کر لیا۔
انہوں نے اپنے کمیونسٹ نظریات کے ساتھ ساتھ اپنے نسلی غرور، حیثیت کی حفاظت اور پیسوں کے بدلے خوارج کی اس جماعت کو حمایت فراہم کی، جس میں سے کئی بعد میں مجاہدین کی جنگوں میں مارے گئے۔ تاہم میڈیا کے مطابق ان افسروں نے عوامی قتل عام کے سوا کچھ نہیں کیا اور نہ ہی کسی میدان میں امریکیوں کو کوئی نقصان پہنچایا بلکہ کچھ نمائشی کاروائیوں کے ذریعے انہوں نے امریکہ کے ساتھ ظاہری دشمنی کا اظہار کیا، مگر ان کا اصل مقصد حقیقی مجاہدین کی تحریک کو کمزور کرنا اور امریکی مفادات کی حفاظت کرنا تھا۔
شواہد سے معلوم ہوتاہے کہ ۲۰۱۳ء میں ابو غریب جیل توڑنے کے بعد کئی مجرمین اور صدام کے فوجی بھی اپنی حفاظت اور انتقام کے لیے داعش کی صفوں میں شامل ہوگئے اور امریکی حمایت کے تحت استعمار کے مفادات کی خدمت شروع کر دی تھی۔