2010ء کے بعد جب سے داعش عراق کے جغرافیہ پر نمودار ہو کر شام تک پھیل گئی تھی، ابتداء سے لے کر اب تک داعش کے زیادہ ترافراد مغربی ممالک کے مختلف گروہوں اور نظریات کے لوگ ہیں، جنہیں مغربی منصوبوں کےمطابق داعش کے ساتھ تعاون کی بنیاد پر بھیجا گیا ہے۔
یہ بات کہ مغربی ممالک داعش کے پشت پناہ ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی ممالک اپنے باشندوں کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کے ہر قسم کے لوگوں کو داعش کی صفوں میں شامل ہونے کی ترغیب دیتے ہیں، داعش کی صفوں میں آنے والے لوگوں کے زیادہ تر اخراجات مغربی ممالک برداشت کرتے ہیں، یہ اس لیے تاکہ داعش کو قوی کیا جائے۔
مغربی ممالک چاہتے ہیں کہ داعش کی سوچ اور کاروائی سے ایشیائی ممالک کو نقصان پہنچایا جائے، تاکہ داعش کی سوچ کی وجہ سے ایشیائی اقوام میں انتشار پیدا ہو جائے اوروہ ایسے اختلافات میں پھنس کر نہ دین کے رہیں نہ دنیا کے کام آسکیں۔
داعش کے ابتدائی سالوں میں یورپی ممالک سے بہت سے لوگ عراق اور شام آئے اور یہ بات یقینی ہے کہ اب تک جو لوگ داعش میں شامل ہوئے ہیں وہ زیادہ ترانگریزوں کے حامی ہیں۔
’’داعش‘‘ نامی کتاب میں لکھا گیا ہے: ’’ان گروپوں کے جنگجوؤں کے علاوہ جو داعش جیسی سوچ رکھتے ہیں، 80 یورپی اور مغربی ممالک کے سینکڑوں افراد یکے بعد دیگرے ترکی سے شام جا چکے ہیں، اس بات کے واضح آثار ہیں کہ یہ لوگ وہ جنگجو ہیں جو باہر سے آئے ہیں، ان جنگجوؤں کی عمریں 15 سے 20 سال کے درمیان ہیں اور ان کے پاس جنگ کا کوئی سابقہ تجربہ نہیں ہے۔‘‘
حیرت کی بات یہ ہے کہ جو بھی جنگجو بیرونی ممالک سے آتے، ان کے ساتھ مغربی لڑکیاں بھی ہوتیں، جن میں سے اکثر نے مغرب میں پرورش پائی تھی، ان لڑکیوں کی شام میں داعش کے جنگجوؤں سے شادی کرائی گئی، تاکہ داعش کے لیے ایک نئی نسل کو جنم دے سکیں، چند لڑکیوں اورخواتین کو جنگی تربیت بھی دی جاتی، جنہیں بعد میں خودکش حملوں کے لیے استعمال کیاجاتا۔
یہ جو سینکڑوں لوگ یورپ، لندن اور دیگر مغربی ممالک کی مدد اور تعاون سے ایک منظم شکل میں داعش کے پاس آ رہے ہیں، اس سے واضح ہوتا ہے کہ داعش کا منصوبہ مغربی ممالک کی مدد سے بنایا گیا ہے اور داعش اور مغربی ممالک کے درمیان مسلسل تعاون جاری ہے۔
داعش کے ساتھ مغربی ممالک کی جانب سے مدد و تعاون کا ثبوت یہ بھی ہے کہ پاکستان خطے میں لندن کے سفارت خانے کے طور پر سرگرم ہے، مغربی ممالک کی ایماء پر داعشیوں کو پاکستان بھیجا جاتا، یہاں انہیں مراکز بنا کر دیے جاتے، اسی طرح افغانستان میں امریکہ کے موجود ہوتے ہوئے افغان فوج و انٹیلی جنس اداروں کے اعلی عہدیدار جو امریکیوں کے تنخواہ دار تھے، یہ تمام افراد داعش کی خدمت میں مصروف تھے، یہاں تک کہ جن علاقوں میں امارت اسلامی کے مجاہدین داعش سے جنگ میں مصروف ہوتے، افغان حکومت کی فوج داعش کی مدد کے لیے آپہنچتی۔
جب امارت اسلامیہ اقتدار میں آئی تو جمہوری دور کے زیادہ تر سپاہی امریکیوں کے کہنے پر داعش کی صفوں میں نظر آئے جس کا مطلب ہے کہ داعشی منصوبے کے پیچھے مغربی ممالک کا ہاتھ ہے، وہ ان کے ساتھ ہر طرح سے مدد وتعاون کرتے ہیں۔