اسلام دشمن قوتوں کی جانب سے داعشی منصوبے کو اسلام کی بدنامی، جہادی وحدت کے خاتمے، جہادی تحریکات کو داخلی طور پر مصروف کرنے، مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے اور اپنے اسلاف اور قیادت پر سے مسلمانوں کا اعتماد ختم کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا۔ اسلام دشمن قوتوں نے اس منصوبے کو عراق، شام، لیبیا، یمن، صومالیہ، افغانستان اور براعظم افریقہ میں مذکورہ بالا اہداف کے حصول کے لیے استعمال کیا۔ اب یہ منصوبہ اسلام دشمن قوتوں کی پراکسی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ہاتھ میں چلا گیا ہے۔ داعش کی خراسان شاخ جو افغانستان میں حملہ آوروں اور ان کے غلاموں کے خلاف مقدس جہاد کے آگے رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لیے ایجاد کی گئی تھی، مطلوب نتائج نہ دے سکی۔ شرعی نظام کی حکمرانی سے پہلے اور بعد میں افغانستان میں انہیں سخت شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اب ان کا ہیڈ کوارٹر بلوچستان منتقل ہو چکا ہے اور وہاں اسے محفوظ پناہ گاہیں بنانے کے مواقع فراہم کیے گئے ہیں اور اس کی سرگرمیوں کو برداشت اور نظر انداز کیا جاتا ہے۔ بلواسطہ طور پر اسلام دشمن قوتوں کی اپنی پراکسی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذریعے کوشش ہے کہ اس منصوبے کا نفوذ تمام قبائلی علاقوں میں پھیل جائے اور اس کے ساتھ ساتھ ہر اس شخص کے خلاف ان سے کام لیا جائے جو اپنے وسائل بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان میں اسلامی مقدسات، شعائر، دینی مراکز اور اسلامی ثقافت کے تحفظ اور حمایت کے لیے کام کر رہا ہو۔
داعش کے منصوبے کے اولین اہداف میں دیو بندی مکتبہ فکر اور مسلک سے تعلق رکھنے والے دینی علمائے کرام اور مدارس شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جمیعت علمائے اسلام جسے پاکستان میں دیوبندی مکتبہ فکر اور مسلک کے اکثر علماء کی حمایت حاصل ہے، داعشیوں کے اولین اہداف میں سے ہے۔ جمیعت علمائے اسلام وہ واحد تنظیم تھی جس نے گزشتہ بیس سالوں میں حملہ آوروں کے خلاف جہاد کی مدد و حمایت کی۔ گزشتہ چند ماہ میں باجوڑ، اور بلوچستان میں ان کے اجتماعات میں وحشیانیہ اور خونریز حملوں کے بعد، جس میں سینکڑوں دینی علمائے کرام، مدارس کے طلباء اور عام صالح مسلمان خون میں نہا گئے، اب داعش کی جانب سے علمائے کرام اور جمیعت علمائے اسلام کی سرکردہ شخصیات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جنوبی وزیرستان کے علاقے وانہ میں مولوی میرزا جان جو کہ جمیعت علمائے اسلام کے جنوبی وزیرستان میں سابق سربراہ اور ایک مقامی عالم تھے،کچھ عرصہ قبل داعش کے ایک حملے میں شہید ہو گئے۔ اس حملے سے معلوم ہوتا ہے کہ داعشیوں کو آہستہ آہستہ قبائلی علاقوں میں اثر و رسوخ دیا جا رہا ہے اور کوئی بھی شخص جو دیوبندی مکتبہ فکر و مسلک سے تعلق رکھتا ہو اور نفاذ شریعت کا نعرہ بلند کرتا ہو وہ داعشی منصوبے کی ٹارگٹ لسٹ میں شامل ہو گا۔
المرصاد کو اپنے ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق، داعشیوں کے اثر و رسوخ میں اضافہ اور ان کے ذریعے دیوبندی فکر و مسلک سے مربوط دینی علمائے کرام کی ٹارگٹ کلنگ اسلام دشمن قوتوں کی نئی حکمت عملی ہے، جسے وہ اپنی پراکسی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مدد سے عمل میں لا رہی ہیں اور یہ ایجنسیاں اس حکمت عملی پر عمل درآمد کے لیے داعش خراسان کو استعمال کر رہی ہیں جس کا ہیڈ کوارٹر بلوچستان منتقل ہو چکا ہے۔ ممکن ہے مستقبل قریب میں اس حکمت عملی کے مطابق دیوبندی فکر کے علماء، مدارس اور اجتماعات پر مزید حملے کیے جائیں۔ اسی وجہ سے دیوبندی فکر و مسلک کے علماء، طلباء اور مدارس کو اس نئی سازش پر توجہ دینی چاہیے۔ داعشی منصوبے کے خاتمے کے لیے فکری اور دعوتی کام کرنا چاہیے اور عام مسلمانوں میں عمومی آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔