داعش کے خلاف عالم اسلام کی ذمہ داری | پہلی قسط

#image_title

طاہر احرار

 

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

واتقوا فتنة لا تصيبن الذين ظلموا منکم خاصة

ترجمہ و تفسیر: ڈرو اس فتنے کے وبال سے جو صرف ظالموں کو نہیں پہنچے گا بلکہ خاموش رہنے والے بھی اس وبال میں شامل ہوں گے۔

 

حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد فتنوں نے سر اٹھانا شروع کر دیا، بعض فتنے اٹھتے ہی ختم ہو گئے، اور بعض دیگر حکمرانوں، امراء اور منتظمین کے نرم رویے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت وقت تک باقی رہے، اس سے نہ صرف یہ کہ لوگ گمراہ ہوئے، بلکہ دنیوی اعتبار سے قتل و غارت گری کی وجہ سے لاکھوں مسلمان متاثر ہوئے۔

 

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ایک دن حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ منبر پر کھڑے ہوئے اور مذکورہ بالا آیت تلاوت کی، پھر زار و قطار رونے لگے اور فرمایا کہ ہم عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ آیت تلاوت کرتے تھے لیکن ہمیں علم نہیں تھا کہ ہم ہی ایسے فتنے کا شکار ہو جائیں گے اور اس وبال میں شریک ہو جائیں گے۔

 

اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے حضرت عثمان کی شہادت کے فتنے کو روکنے میں اپنی طاقت اور کوشش استعمال نہیں کی وہ وبال میں شریک ہیں۔

 

آئیں! فتنوں کے اس وقت میں اپنی ذمہ داریوں اور مسئولیت کی فکر کریں، اور جانیں کہ اس دورِ فتن میں ہماری ذمہ داری کتنی اور کیا ہے؟

 

حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں حوض کوثر پر ہوں گا یہاں تک کہ جو تم میں سے میرے پاس آئے گا میں اسے دے رہا ہوں گا اور کچھ لوگوں کو میرے قریب ہونے سے پہلے ہی پکڑ لیا جائے گا تو میں اللہ عز وجل کی بارگاہ میں عرض کروں گا اے میرے پروردگار! یہ لوگ تو میرے فرمانبردار اور میرے امتی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب میں کہا جائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا کام کیے۔ اللہ کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ لوگ فورا ایڑیوں کے بل پھر گئے ۔ راوی کے بقول ابن ابی ملیکہ یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ اے اللہ! ہم اس بات سے پناہ مانگتے ہیں کہ ہم ایڑیوں کے بل پھر جائیں اور اس بات سے بھی کہ ہم اپنے دین سے کسی فتنے میں مبتلا کر دیے جائیں۔

 

محدثین کرام فرماتے ہیں کہ دین سے ایڑیوں کے بل پھر جانے کا مطلب یہ ہے کہ دین کی غلط تعبیر کر لی جائے اور لوگوں کو اس سے متنفر کر دیا جائے اور فتنوں میں مبتلا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ فتنوں کے وقت میں کوئی خاموش بیٹھا رہے اور اس فتنے کو دور نہ کرے۔

 

فتنوں کو دور کرنا عام لوگوں سے لے کر امراء تک ہر عاقل و بالغ مسلمان کی ذمہ داری بنتی ہے۔

 

جاری ہے۔۔۔!

Author

Exit mobile version