آج سے تقریبا سو سال قبل خلافت عثمانیہ کی شکل میں امت مسلمہ کی عظمت کا سورج غروب ہو گیا اور پھر عشروں تک مسلمان ظلم و بربریت اور یلغاروں کی زد میں رہے۔
اگرچہ آغاز میں خلافت کی بحالی کی خاطر مختلف جگہوں پر کوششیں کی گئیں لیکن استعمار یا ان کے پیروکاروں کی طاقت زیادہ تھی، اور مسلمانوں کا یہ ارمان پورا نہ ہو پایا، اور وہ لوگ بتدریج ختم ہوتے چلے گئے۔
رفتہ رفتہ مغربی جارحیت پسندوں نے مسلمانوں کے ذہنوں کو اس طرح اپنے شکنجے میں جکڑ لیا کہ وہ چاہے جتنی بھی ذلت اور غلامی میں زندگی بسر کر لیں پھر بھی حریت و آزادی کا سوچتے نہ تھے۔
یہاں تک کہ سوویت یونین نے افغانستان پر عسکری حملہ کر دیا اور مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے۔ اس جدوجہد اور قتال کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک پانچ سالہ آزاد و خود مختار شرعی نظام و امارت (خلافت) نصیب کی جسے دیکھتے ہوئے پوری دنیا کے مسلمانوں میں اپنے ماضی کے وقار کو پھر سے زندہ کرنے کی سوچ پیدا ہوئی اور پوری اسلامی دنیا میں شرعی نظام کی خاطر لوگ اٹھ کھڑے ہوئے۔
اگرچہ افغانستان میں امریکہ نے اپنے اتحادیوں اور داخلی زر خریدوں کی مدد سے امارت اسلامیہ کا تختہ الٹ دیا لیکن اس کے دوبارہ قیام کے لیے پوری دنیا میں کوششیں ہونے لگیں اور اسی دوران دولت الاسلام فی العراق والشام کی جانب سے خلافت کا اعلان کر دیا گیا۔
پوری دنیا کے مظلوم مسلمانوں کی امید بھری نظریں ان پر لگی ہوئیں تھیں لیکن پھر بھی اہلِ علم و دانش جانتے تھے کہ یہ خلافت علی منھاج النبوۃ نہیں کیونکہ نہ تو خلیفہ کا تقرر علی منھاج النبوۃ کیا گیا اور نہ ہی خلافت کے قیام کی وہ شرائط پوری تھیں جو اسلامی سیاست کے ماہرین علماء نے بیان اور واضح کی ہیں۔
در حقیقت مغرب نواز میڈیا شب و روز اس کا ڈھنڈھورا پیٹنے میں مصروف تھا تاکہ بے خبر مسلمانوں کے دلوں میں اس کی محبت ڈل جائے۔ بہت سوں نے اپنا گھر بار، مال اولاد چھوڑا اور اسلامی نظام کے دوبارہ قیام کی خاطر داعش کی صفوں میں جا شامل ہوئے لیکن انہیں کیا خبر تھی کہ وہ دجل و فریب کے جال میں پھنس چکے ہیں۔ وہ تو جہاد فی سبیل اللہ کی خاطر ان کے ساتھ شامل ہوئے تھے، لیکن وہ لڑے مسلمان مجاہدین کے خلاف۔ جہادی صفیں منقسم ہو گئیں اور بعض تو سرے سے ختم ہی ہو گئیں جیسے عراق میں انصار السنۃ۔
وہ لوگ جو ان کی حقیقت سے لاعلم اور ان کے میڈیائی پراپیگنڈہ سے متاثر تھے، خوش فہمی کا شکار تھے کہ ایک بار پھر سے مسلمانوں کو ماضی کی طرح (خلافت راشدہ، امویہ، عباسیہ، عثمانیہ) عزت اور وقار حاصل ہو گیا۔
لیکن جب آہستہ آہستہ ان کی خارجی فکر اور متشدد منہج کی سمجھ آنا شروع ہوئی، بہت سے مایوس اور ناامید ہو گئے، یہاں تک کہ خلافت کے نام سے ہی اس قدر بیزار ہو گئے کہ اس کا نام تک سننا انہیں پسند نہ رہا، حالانکہ خلیفہ کا ذکر تو آیات میں بھی ہے، خلافت کا ذکر تو احادیث میں ملتا ہے، لیکن ان لوگوں (داعش) نے لوگوں کے اندر اس قدر نفرت بھر دی کہ خلافت اور خلیفہ کا نام سنتے ہیں ان کے ذہنوں میں مظالم اور قتل و غارت گری ہی آتی۔
اللہ تعالیٰ افغانستان میں آنے والے اسلامی نظام کو مسلمانوں کے ارمانوں کا محافظ بنا دے۔ آمین