افغانستان میں شکست کے بعد امریکہ مستقل کسی نہ کسی نئی چال اور فریب سے رائی کا پہاڑ بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور حقیقت کے برعکس داعش خراسان کو دنیا کے لیے ایک عظیم خطرے کے طور پر متعارف کروانے کی کوشش کر رہا ہے، حالانکہ افغانستان میں داعش خراسان کی موجودگی محض ایک پراپیگنڈہ ہے۔
آخر کار امریکہ نے داعش کے حق میں کمپین چلانے کے لیے ایک بڑا قدم اٹھایا اور کچھ عرصہ قبل اعلان کرتے ہوئے داعش کے مالیاتی نیٹ ورک کو ختم کرنے کے لیے معلومات فراہم کرنے پر دس ملین ڈالر کے انعام کی پیشکش کی۔
واضح رہے کہ اسی اعلان میں یہ بھی کہا گیا کہ داعش اپنے مالی وسائل صوبہ ننگر ہار کے قدرتی وسائل، طلق کی کان، مقامی لوگوں سے ٹیکس وصولی، تاجروں سے پیسے لے کر اور افغانستان میں تباکو کی فروخت سے پورے کرتی ہے۔
یہ ایک مضحکہ خیز اور جھوٹا دعویٰ ہے جس کے جھوٹا ہونے پر ہر عقلمند انسان کو یقین ہوگا۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ داعش افغانستان میں ایک انچ زمین پر بھی تسلط نہیں رکھتی لیکن کانوں سے معدنیات نکالتی ہو، مقامی لوگوں اور تاجروں سے پیسے وصول کرتی ہو اور تمباکو فروخت کرتی ہو؟
جب وہ کہتے ہیں کہ داعش مقامی لوگوں سے مالی تحائف وصول کرتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ امریکہ ایسی باتوں سے ثابت کرنا چاہتا ہے کہ افغان معاشرے میں خوارج کا گروپ اپنا مقام رکھتا ہے اور بلواسطہ طور پر یہ بھی کہنا چاہتا ہے کہ عوام اس گروپ کے ساتھ تعاون کرتی ہے۔
یہ دعویٰ سوائے توہین کے اور کچھ نہیں اور ساری دنیا گواہ ہے کہ افغان عوام اس فتنہ پرست گروہ سے کس قدر نفرت اور بغض رکھتی ہے۔
اگر حقیقت میں امریکہ کا مقصد داعش کو کمزور کرنا ہوتا تو اسے اس وقت کیوں نہ تباہ کیا جب امریکی افواج افغانستان میں موجود تھیں اور بعض علاقے داعش کے زیر تسلط بھی تھے؟
اس وقت داعش کے مالیاتی نیٹ ورک کی تباہی کے لیے اقدامات اور اس قدر انعام مقرر کیوں نہ کیا؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ داعش کو ترویج دے رہا ہے تاکہ یورپی ممالک اور افغانستان کے پڑوسیوں کو دھوکہ دے کر امارت اسلامیہ کو رسمی طور پر تسلیم کیے جانے کے راستے میں روڑے اٹکائے۔
لیکن جو بات سب پر اچھی طرح واضح ہے وہ یہ ہے کہ افغانستان میں داعش کی جڑیں سوکھ چکی ہیں اور اس کی تمام ناروا دسیسہ کاریاں ناکام ہو چکی ہیں۔ اگرچہ امریکہ اس فتنے کے لیے خاموش پراپیگنڈہ کر رہا ہے لیکن پھر بھی دنیا کے دیگر ممالک اس حوالے سے موجودہ صورتحال دیکھتے ہوئے امارت اسلامیہ کے ساتھ تعامل کر رہے ہیں۔