خوارج کی جھوٹی خلافت کے اعلان سے لے کر اس کے آخری روز تک ان کے قائدین کے قول و فعل میں شدید تضاد رہا۔
وہ اپنے بیانات میں امت مسلمہ سے مطالبہ کرتے کہ ان کی باطل جماعت کے بارے میں باہر سے فیصلہ نہ کریں، آئیں اور ان کے کام نزدیک سے دیکھیں۔ پھر جس نے بھی ان پر اعتراض اور تنقید کرنے کے لیے آواز اٹھائی، ان پر مختلف حیلوں سے الزامامات لگائے گئے اور ان جرائم کی پاداش میں جو انہوں نے کیے ہی نہیں، انتہائی بے دردی سے قتل کر دیے گئے۔
خوارج جب بھی منہ کھولتے تو دنیائے کفر کے خلاف جہاد اور بے گناہ مسلمانوں کے خون کا بدلہ لینے کی بات کرتے۔
انہوں نے اپنی شیریں زبان اور پرجوش تقاریر سے اسرائیل اور امریکہ کو دھمکیاں دیں، لیکن ان کا عمل ان کی تقاریر سے کبھی ظاہر نہ ہوا۔
ان کے ترجمان جادوگروں کی مانند اپنی تقریروں اور نعروں سے لوگوں کو دھوکہ دیتے اور اس طرح اپنے برے کرتوت چھپا لیتے۔
اگرچہ وہ خود کو اسرائیل کے بدترین دشمن کہتے، لیکن جب مصر کے صحرائے سینا کے ایک بڑے علاقے کو انہوں نے اپنے تسلط میں لیا، تو ایک مجاہد جو حماس کے بھائیوں کو اسلحہ فراہم کرتا تھا، اسے مرتد کہہ کر اس کا سر قلم کر ڈالا۔
اگرچہ عدنانی نے اپنے بیانات میں قسم کھائی کہ وہ مسلمانوں کے دفاع اور حفاظت کی خاطر نکلے ہیں، لیکن ان کے کام بے گناہ مسلمانوں کا خون بہانے اور مسلمانوں کی ناموس دونوں ہاتھوں سے اسلام دشمنوں کے حوالے کرنے کے سوا اور کچھ نہ تھے۔
ان دنوں جب ان کی نام نہاد خلافت اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی، زمین ان پر ماضی کی نسبت کہیں زیادہ تنگ ہو چکی تھی اور انہیں ہر طرف سے گھیر لیا گیا تھا، تب وہ گھرانے جو اپنی جان بچانے کی خاطر اسی فسادی خلافت سے فرار کی کوشش کر رہے تھے، نامعلوم مسلح افراد کے ہاتھوں نشانہ بنے اور بے رحمانہ طور پر شہید کر دیے گئے۔ حالانکہ خود ان کا نام نہاد خلیفہ اپنی خلافت کی حدود سے باہر مارا گیا۔
مذکورہ بالا باتیں ان کے عمل اور بیانات کے درمیان تضاد کی کچھ مثالیں ہیں اور اگر ہم ان کے قول و فعل کا ہر تضاد واضح کرنا چاہیں تو کئی کتابیں بھی اس کے لیے پوری نہ پڑ پائیں گی۔
لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اس فتنے کی آگ اب دم توڑ چکی ہے اور امت مسلمہ کے لیے ان سے خوفزدہ ہونے کی کوئی چیز باقی نہیں بچی۔
ان شاء اللہ