مستغفر گربز
پاکستانی حکومت کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ انٹیلی جنس کمزوری، خراب معاشی صورتحال، عوام کا عدم اعتماد اور باہمی اختلافات انتہائی حد تک پہنچ چکے ہیں۔
وہ ان سنگین حالات سے نکلنے کے لیے کوشش میں ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالے اور بین الاقوامی پلیٹ فارم پر جو اس کی ساکھ تباہ ہوئی ہے وہ کسی طرح دوبارہ بحال کر لے۔
اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پاکستانی حکومت نے افغانستان کو کھیل کا میدان بنا لیا ہے اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے اس پر طرح طرح کے الزامات لگا رہی ہے اور دنیا کے سامنے اسے دہشت گرد کے طور پر متعارف کروا رہی ہے، اور اس طرح اپنی تباہ شدہ ساکھ اور حیثیٹ کو بہتر بنانا چاہ رہی ہے۔
پاکستانی حکومت کے افغانستان سے متعلق جانبدارانہ رویے کی کئی وجوہات ہیں، مستحکم حکومت، معاشی مضبوطی، اور عالمی برادی سے اچھے تعلقات اس کی چند مثالیں ہیں۔
پاکستنای حکومت اپنی ناکام سیاست اور غلطی پالیسیوں کی وجہ سے ہمیشہ دوسروں کی آلۂ کار بنی رہی رہے اور ایسے اقدامات اٹھانے پر مجبور ہوتی رہی ہے کہ جس کے نتیجے میں اسے بڑے خسارے اور سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ہماری پاکستانی عوام سے کوئی دشمنی نہیں، دین اسلام نے ہمارے لیے دوستی اور دشمنی دونوں کے معیار متعین کر دیے ہیں۔
ہماری دشمنی اس دن سے پاکستانی حکومت اور فوج کے ساتھ ہو گئی جب ۲۰۰۱ء میں امریکہ نے افغانستان پر حملے کا ارادہ کر لیا، پاکستانی حکومت نے اس کی مدد کی اور جیکب آباد اور شمسی ائیر بیس امریکہ کے حوالے کر دیں اور اسی طرح بحری اور بری راستوں کے ذریعے ان کے عسکری وسائل کی نقل و حمل کا بھی انتظام کیا۔
اس حکومت کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ عالمی برادری کے سامنے افغانستان کو ایک بد امن اور دہشت گردوں کے ٹھکانے کے طور پر پیش کرے اور افغانستان کی بربادی سے اپنے مفادات نکالے۔
گزشتہ دنوں ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان اپنے مقاصد کے حصول کے لیے افغانستان کے خلاف بعض مسلح گروہوں کے ساتھ تعاون کر رہا ہے، اور تاجکستان اور پاکستان کے انٹیلی جنس اداروں کے درمیان ایک خفیہ معاہدہ طے پایا ہے جس کے تحت دونوں ممالک اپنے پراکسی گروپوں ، داعش خراسان اور اور این آر ایف کے ساتھ تعاون کو بڑھائیں گے۔
یاد رہے کہ پاکستان افغانستان پر دہشت گردی کا الزام ایسے وقت میں لگا رہا ہے کہ جب داعش کے پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے تیرا میں بے شمار مراکز ہیں اور اسے براہ راست پاکستانی حمایت حاصل ہے اور وہاں سے ایسے حملے کیے جا رہے ہیں جو اس کے اور امریکہ دونوں کے مفادات کے تحفظ کے ضامن ہوں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی حکومت کے حوالے سے دقیق غور و فکر کیا جائے، اس کی نیت اور ارادے کے حوالے سے پوری تحقیق کی جائے اور اس کے ہر اقدام پر کڑی نظر رکھی جائے، کیونکہ یہ حکومت خطے میں کینسر کی طرح ہے، اور اس زہریلی بیماری پر قابو پانا یا اسے ختم کرنا، خطے میں استحکام لانے کے برابر ہے۔