رسول اللہ ﷺ کا اپنے صحابہ کرام کے ساتھ برتاؤـ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام سے بے انتہا محبت رکھتے تھے۔ آپ ہمیشہ ان کے ساتھ اخلاقِ حسنہ کے ساتھ پیش آتے اور ان سے بڑی ہمدردی کا برتاؤ کرتے تھے۔ آپ چاہتے تھے کہ آپ اپنے صحابہ کی ضروریات سے آگاہ ہوں، اسی لیے آپ ان سے ایک قریبی اور مہربان ساتھی کی طرح ان کی ضروریات سے متعلق ہمیشہ پوچھتے رہتے تھے۔ آپ ان کی ضرورتوں کو سمجھ کر مدد فراہم کرتے تھے، اور اگر کسی کو مشورے کی ضرورت ہوتی تو آپ انہیں بہترین مشورہ دیتے۔
جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی سے ملتے تو آپ کی صورت پر ہمیشہ خوشی دکھائی دیتی تھی، ایسا چہرہ جس سے یہ نہ لگتا ہو کہ آپ پر کسی قسم کا بوجھ ہے یا آپ پر کوئی تکلیف آئی ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: : «كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا بلغه عن الرجل الشيء لم يقل ما بال فلان يقول، ولكن يقول: ما بال أقوام يقولون كذا وكذا.» (سنن أبي داود: (4/ 397
ترجمہ: جب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی شخص کے بارے میں کوئی بات آتی، تو آپ یہ نہیں کہتے تھے کہ فلاں شخص نے یہ کہا، بلکہ آپ کہتے تھے کہ کیا بات ہے کہ لوگ ایسا ایسا کہتے ہیں؟
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایک اور حدیث روایت ہے: «ولأحمد من حديث أنس أن النبي صلى الله عليه وسلم كان لا يواجه أحدا في وجهه بشيء يكرهه» «فتح الباري» لابن حجر (6/ 575)
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کسی سے ایسی بات نہیں کہتے تھے جو اسے ناپسند ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ بہت احترام اور محبت کے ساتھ زندگی گزارتے تھے، مشہور صحابی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا صافح رجلًا لم ينزع يده من يده حتى يكون الرجل هو الذي [ينزع، ولا يصرف وجهه عن وجهه حتى يكون الرجل هو الذي] يصرف، ولم ير يعني مقدمًا ركبتيه بين يدي جليس له قط.» «شعب الإيمان» (10/ 449)
ترجمہ: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مرد سے ہاتھ ملاتے، تو آپ اپنی ہاتھ کو اس سے اس وقت تک نہیں ہٹاتے جب تک وہ شخص خود نہ ہٹالے، اور آپ کبھی اپنے چہرے کو اس کے چہرے سے نہیں پھیرتے تھے، بلکہ وہ شخص خود اپنا چہرہ پھیرلیتا، اور آپ کبھی بھی کسی کے سامنے اپنے پیر نہیں پھیلاتے تھے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: «قال: (تزوجت). قلت: نعم، قال: (بكرا أم ثيبا). قلت: بل ثيبا، قال: (أفلا جارية تلاعبها وتلاعبك). قلت: إن لي أخوات، فأحببت أن أتزوج امرأة تجمعهن وتمشطهن، وتقوم عليهن»«صحيح البخاري»
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اے جابر! کیا تم نے شادی کی ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔
آپ نے فرمایا: کنواری سے شادی کی ہے یا بیوہ سے؟ میں نے کہا: بیوہ سے کی ہے جو عمر میں بھی مجھ سے بڑی ہے۔
آپ نے فرمایا: کنواری سے کیوں نہیں کی، تاکہ تم ایک دوسرے سے کھیلتے؟
میں نے کہا: اے اللہ کے رسول: غزوہ احد میں میرے والد شہید ہوگئے تھے، اور میری سات بہنیں ہیں، اس لیے میں نے چاہا کہ ایسی عورت سے شادی کروں جو میری بہنوں کی سرپرستی کرے اور ان کی تربیت کرے۔