قربانی قوموں میں حریت کی چنگاریاں بھڑکاتی ہے، شہادتیں ہمیں ختم نہیں کرتیں بلکہ ہمیں سرسبز و شاداب کرتی ہیں۔ بہتا خون اور چکنا چور ہونے والا گوشت ہماری بنیادوں کو مضبوط اور بقا کو یقینی بناتا ہے۔
امارت اسلامیہ معاصر تاریخ کے اوراق میں اسلام کے اوراق سے عالمی کفر اور طاغوتوں کے مقابلے میں جہاد کے ایک ایسے مضبوط، متحد، منظم اور طاقتور محاذ کے طور پر ابھری، جس کی مثال نہیں ملتی۔ اس نے نوجوان نسل میں ایثار کا ایک نیا جذبہ جگایا، شہادت کا ایک ایسا باب کھولا جسے عالمِ اسلام نے اپنے نصاب سے خارج کر دیا تھا۔ اس نے استاد کا کردار ادا کیا اور امت کی اس کے اصل مقصد کی طرف رہنمائی کی۔
اس مقدس قافلے کی جڑیں ہزاروں عظیم شہداء نے اپنے پاکیزہ خون سے سیراب کیں۔ ان بہادروں کے خون سے ایک نیا دریائے نیل بنا، جس کی مہلک لہریں اکیسویں صدی کے فرعونی صلیبی لشکروں کو بہا لے گئیں۔ ان کے مقدس خون نے اسلامی بہار کی زرخیز زمین کو اپنے قطروں سے دھویا، اسے پاک کیا اور اسے ثمر آور بنایا۔
چند لمحوں کے لیے اس مقدس قافلے کے قافلہ سالار کے پاس ٹھہرتے ہیں، وہ مدبر رہنما جس نے خود کو شعلوں میں جھونک کر اس وقت راستوں کو روشن کیا جب سپر پاور سوویت یونین کی کاسہ لیس سرخ فوجیں گرم پانیوں تک پہنچنے کے خواب کو پورا کرنے کی خاطر سلطنتوں کے قبرستان، افغانستان میں داخل ہوئیں اور قبضے کی سیاہ آفت نازل ہوئی۔
افغان، وہ نام جس کے سنتے ہی غیرت، جہاد اور ایثار کے کلمات اس کے ساتھ جڑ کر یاد آتے ہیں، انہوں نے اپنے ایمانی غیرت اور ضمیر کی آواز پر پر اس سلطنت کو دفن کرنے کے لیے آستینیں چڑھا لیں۔ اختر محمد نامی اٹھارہ سالہ جوان بھی اس قافلے کا رکن تھا۔ جہاد کی پہلی صف اس پر سجتی تھی، وہ ساتھیوں کا سہارا اور شجاعت کی ایک مثال تھا۔ ہر معرکے کے زخم اس کے بدن پر نمایاں تھے۔ روسی تابوت پر آخری کیل ٹھونکنے تک اس نے بندوق اپنے کندھے سے نہیں اتاری۔
یہاں تک کہ سوویت یونین کی وہ عظیم سلطنت، جو دنیا پر راج کرتی تھی، ناصر رب کے نصرت اور افغان غیور قوم کے ڈیڑھ ملین شہیدوں کی قربانی سے افغانستان میں دفن ہوئی اور پندرہ ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی۔ لیکن افسوس کہ امت مسلمہ کا وہ عظیم خواب، یعنی اسلامی نظام کا قیام اور حریت کی زندگی، پورا نہ ہو سکا، اور ہم داخلی تنازعات کا شکار ہو گئے۔ ہمارا وطن خانہ جنگیوں کی ایک تجربہ گاہ بن گیا۔
اختر محمد منصور صاحب نے اپنے دیگر مخلص مجاہدین کی طرح ہتھیار رکھ دیے اور اقتدار کی خاطر شروع ہونے والی ناجائز جنگ کے تسلسل میں کسی کا ساتھ نہ دیا، بلکہ اپنے باقی دینی تعلیم کی طرف لوٹ گئے۔
جب ان کے کانوں تک شر اور فساد کے مقابلے میں ثالث عمر رحمہ اللہ کی معجزانہ تحریک کے آغاز کی آواز پہنچی، انہوں نے کتابیں بند کیں اور اپنے چند دیگر ساتھیوں کے ساتھ فوراً اس تحریک کا حصہ بن گئے۔ مل کر انہوں نے شر اور فساد کے فتنے کو ختم کیا، ملک میں امن قائم کیا، اور مسلمانوں کی عزت، مال اور آبرو کو محفوظ بنایا۔
گزشتہ امارت میں شہید ملا اختر محمد منصور تقبله اللہ کو ان کے اعلیٰ فہم اور قائدانہ جوہر کی بدولت بڑی بڑی ذمہ داریاں سونپی گئیں، جنہیں انہوں نے پوری امانت داری اور متانت کے ساتھ سر انجام دیا۔ 7 اکتوبر 2001ء کو افغانستان پر امریکا کے صلیبی حملے کے بعد، شہید امیرالمؤمنین نے ایک بار پھر حملہ آوروں کے خلاف مسلح جہاد شروع کیا۔ منصور صاحب کے لیے امریکا کے خلاف جہاد کا مرحلہ سخت آزمائشوں اور چیلنجوں سے بھرپور دور تھا۔
اس وقت مرحوم امیرالمؤمنین ملا محمد عمر رحمہ اللہ کی طرف سے انہیں امارت اسلامیہ کی رہبری شوریٰ کی رکنیت کے علاوہ صوبہ قندھار کی جہادی ذمہ داری بھی سونپی گئی تھی۔ 2003 اور 2008 میں صوبہ قندھار کے مرکزی جیل کو مجاہدین کے ہاتھوں دو بار حیران کن طور پر توڑا گیا، جس میں دونوں بار ڈیڑھ ہزار سے زائد اسیر مجاہدین کو دشمن کے قید سے رہائی دلائی گئی۔ یہ شہید امیرالمؤمنین کی کارنامہ تھی۔
قندھار شہر میں گوریلا شہری جنگ کا آغاز اور تسلسل، دشمن کے مراکز پر بڑی استشهادی عملیات کا انعقاد، یہ وہ چیزیں ہیں جو شہید امیرالمؤمنین کے ذمہ داری کے دور میں صوبہ قندھار میں عملی شکل اختیار کر چکی تھیں۔
جہاد کے دوران جب مجاہدین پر فوجی دباؤ کے علاوہ دشمن کی طرف سے دیگر سیاسی اور پروپیگنڈہ دباؤ بھی بہت بڑھ گیا، اور مزاحمت کے محاذوں پر بہت سے جہادی ذمہ داران شہید ہو گئے اور باقی کئی سارے رہنما اسیر ہو گئے، ایسی حساس صورتحال میں مرحوم امیرالمؤمنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ نے صلیبی حملہ آوروں کے مقابلے میں مجاہدین کی تنظیم سازی کی ذمہ داری شہید امیرالمؤمنین کے کندھوں پر ڈالی۔ انہوں نے عملاً یہ ثابت کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور رہبری شوریٰ کی مدد سے حساس ترین لمحات میں مزاحمت کی ایسی رہنمائی کر سکتے ہیں کہ مجاہدین کو عملی قیادت کی کوئی کمی محسوس نہ ہو۔
شہید ملا اختر محمد منصور تقبله اللہ امارت اسلامیہ کی متعلقہ جہادی سرگرمیوں کی نگرانی اور تنفیذ میں اپنے جہادی رہنما اور مرشد، ثالث عمر کے نقش قدم پر چلے۔ جہادی اہداف کا حصول، خارجی قبضے سے وطن کی آزادی، اور اس میں شرعی نظام کا قیام ان کے جہاد اور جدوجہد کا بنیادی مقصد تھا۔ (وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ) کے اصول کے مطابق، انہوں نے ساتھیوں کے درست مشوروں کو غور سے سنا، اہل افراد کو ذمہ داریاں سونپیں، اور ذمہ داری سونپنے کے بعد ان پر مکمل اعتماد کیا۔ وہ ذمہ دار افراد کو ہمیشہ عوام پر رحم اور ہمدردی کی تلقین کرتے تھے۔
مدبر رہنما تقبله اللہ نے ثالث عمر رحمہ اللہ کی عدم موجودگی میں دو سال تک امارت اسلامیہ کے مقدس اور فاتح لشکروں کی ایسی عظیم فکر کے ساتھ بے مثال رہنمائی کی کہ انہیں عروج کی بلند ترین چوٹیوں تک پہنچا دیا، جس نے عالمی خفیہ ایجنسیوں کو مفلوج اور حیران کر کے رکھ دیا۔
جہاد کے اس مفکر امام نے جہاد کے صفوں کو ازسرنو منظم کیا، تشکیلات کو دوبارہ ترتیب دیا، اور دستوں کو تشکیل دیا۔
جنگ کو دفاعی حالت سے اقدامی میدان میں تبدیل کیا۔ مجاہدین کو جنگی صنعت کے شعبے میں تخلیقی کاموں میں مصروف کیا۔ ان کی قیادت میں اللہ تعالیٰ نے فتح کی دروازے اسلامی لشکروں کے لیے کھول دیے، اور اضلاع، صوبوں، اور بڑی فوجی چھاؤنیوں کی فتح شروع ہوئی۔ شہری جنگوں نے زور پکڑا، استشهادی عملیات نے دشمن کو خوفزدہ کر دیا، اور اس کے لیے کوئی جائے پناہ نہ بچی۔
شہید امیرالمؤمنین نے داعشی خوارج کے خلاف مضبوط اقدامات اٹھائے، خصوصی تربیت یافتہ دستوں کو ملک کے کونے کونے سے ان کے مقابلے کے لیے بھیجا، اور افغانستان میں ان کی جڑیں پختہ ہونے سے پہلے ہی اکھاڑ پھینکیں۔
شمس الشہداء تقبله اللہ نے اپنی مدبرانہ قیادت اور اعلیٰ سیاسی و عسکری فہم کے ساتھ امارت اسلامیہ کی بنیادوں کو اس قدر مضبوط کیا کہ ان کے کوچ کرنے کے بعد نہ صرف یہ صف متزلزل نہ ہوئی، بلکہ مزید پختہ، مستحکم، راسخ، اور ایک فاتح لشکر اور عظیم اسلامی نظام میں تبدیل ہو گئی۔
اے عمر کے راہ رو!
آپ کی شہادت مبارک ہو؛ ہمارے شہید رہنما، آپ ہمارا فخر اور اعزاز ہیں۔ آپ نے اس مقدس صف کا مضبوط دفاع اور حفاظت کی۔ آپ نے اس مقدس صف کے لیے اپنے نازک جسم کی ہڈیوں کو ڈرون کا ایندھن بنایا۔ آپ نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا۔
اے قافلہ سالار!
آپ دوسرے علی بن ابی سفیان تھے۔ عالمی تحقیقاتی مراکز، خفیہ ایجنسیاں، اور جدید ترقی یافتہ یونیورسٹیاں آپ کے اعلیٰ فہم اور دور اندیش فکر کو اپنے نصاب میں شامل کریں گی۔
اے چودھویں صدی کے شہید منصور!
آپ نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا۔ آپ سچے ثابت ہوئے۔ آپ نے ہماری نوجوان نسل کو قربانیوں کی عملی مثالیں دکھائیں۔ چودہ سو سال بعد، ایک منصور شعلوں میں لپٹا۔ اے مدبر رہنما، اللہ تعالیٰ کی زیارت، عظیم جنتوں، اور حور العین آپ کا نصیب ہوں۔