میں نے قلم اٹھایا اور ارادہ کیا کہ پاکیزہ صف کے اُس مبارک سفر اور روشن ستاروں کے جھرمٹ سے نکلنے والے ایک جنتی نوجوان پر لکھوں، جس کی پیدائش، تعلیم، اور اکیسویں صدی کے جدید فرعونی طاغوت، امریکی سامراج اور بالخصوص یہودی، اسلام دشمن فتنہ (داعشی منصوبے) کے خلاف عظیم، باوقار جدوجہد، قربانی، بہادری اور ان کی فداکاری کی داستان کو اپنے دل کے جذبات کے ساتھ، قلم کے آنسوؤں میں ڈبو کر کاغذ پر منتقل کروں — تاکہ ان نوجوانوں کی قربانیوں اور جدوجہد کے مقاصد آنے والی نسلوں تک پہنچ سکیں۔
۱۔ پیدائش:
اللہ جل جلالہ کے اس عظیم اور مبارک راستے کے نوجوان سپاہی، شہید نصیب الرحمن ’’انتظار‘‘ تقبله اللہ نے سن ۱۳۷۴ ہجری شمسی میں ولایت وردگ کے ضلع سیدآباد کے شہید پرور درے ’’شنیز‘‘ کے حسن خېل گاؤں میں ایک دین دار اور باوقار گھرانے میں آنکھ کھولی۔
۲۔ تعلیم:
شہید انتظار نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کی مسجد میں موجود ملا امام سے حاصل کی، جبکہ عصری تعلیم ضلع سیدآباد کے معروف تعلیمی ادارے، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اسکول میں بارہویں جماعت تک مکمل کی۔
۳۔ جدوجہد:
چونکہ شہید انتظار کے کندھوں پر تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان کی کفالت کی ذمہ داری بھی تھی، اس لیے انہوں نے اپنے خاندان کے معاشی مسائل کے حل کے لیے ہمسایہ ملک ایران کا سفر کیا۔ دو سال کی کٹھن ہجرت کی زندگی اور محنت کے بعد اپنے ملک واپس ہوئے، ابھی ان کے جسم محنت ومشقت کی تھکن سے سکون و آرام کا سانس بھی نہ لیا تھا کہ انہوں نے سیدآباد ضلع کے ایک ممتاز، دلیر اور دشمن کے مقابلے میں ناقابلِ شکست کمانڈر، شہید حاجی محب اللہ ’’وقاص‘‘ تقبله اللہ کے گروپ میں شمولیت اختیار کی اور مسلح جہاد کا آغاز کیا۔
شہید انتظار نے اپنی جدوجہد کا آغاز دشمن کے خلاف ٹارگٹ کلنگ جیسے حملوں سے کیا۔ چونکہ دشمن کے خلاف مجاہدین کے گھات حملے، مورچوں کی گرمی اور امت کے بہادر فرزندوں کی موجودگی ایک عظمت کا منظر پیش کرتی تھی، اس لیے شہید انتظار نے بھی پورے شوق، پختہ عزم اور انتہائی بہادری کے ساتھ باطل کے خلاف ہر معرکے میں شرکت کی۔
شیطانی لشکروں کے خلاف اس نوعیت کے خطرناک حملوں میں وہ کئی بار زخمی ہوئے، اور اپنے جسم کا گوشت اور خون اس راہ میں خوشی خوشی قربان کیا، یہاں تک کہ سخت زخموں کی وجہ سے اُن کے ہاتھ کی دو انگلیاں بھی ضائع ہو گئیں۔
دشمن کو مزید ذلت اور شکست سے دوچار کرنے کے لیے مجاہدین نے اپنے جہادی حملوں کو ٹارگٹڈ حملوں سے بڑھا کر بڑے آپریشنز اور باطل کے مراکز پر ابابیلوں کی طرح یلغار کی صورت میں تبدیل کر دیا، اور ان اجتماعی حملوں کے ہر قافلے میں شہید انتظار کا فعال کردار شامل رہا۔
یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا تھا جب شہید انتظار کا ایک بھائی بھی اسی مبارک راستے میں پہلے ہی شہید ہو چکا تھا، جس نے ان کی عزت مآب والدہ کے دل کو غموں سے چیر دیا تھا، اور شہید کی بیوہ اور یتیم بچوں کے لیے زندگی کے سبھی رنگ بے رنگ ہو چکے تھے۔
اسی دوران شہید انتظار کے خاندان نے فیصلہ کیا کہ اُن کی منگنی کی جائے۔ چند دن بعد ایک باحیا، نیک اور عزت دار لڑکی سے ان کی منگنی ہو گئی۔ شہید انتظار نے اپنی اہلیہ کے ساتھ چند دن گزارنے کے بعد، نہ صرف اپنے علاقے میں جہادی مصروفیات جاری رکھیں، بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہودی منصوبے (داعشی) فتنے کے خلاف، سیدآباد کے قافلے میں شامل ہو کر ننگرہار کی طرف روانہ ہوئے۔
اس وقت فتنہ پرور، مجاہدینِ حق کے مسلسل اور ہدفی حملوں سے شدید شکست کا سامنا کر رہے تھے۔ دشمن مایوسی کی حد کو پہنچ چکا تھا، لہذا امریکی قابضین نے اس علاقے اور تمام آمد و رفت کی راہوں کی سخت نگرانی شروع کر دی تھی تاکہ مجاہدین کی مدد کے لیے آنے والے قافلوں کو روکا جائے اور اپنے وحشی داعشی ایجنٹوں کو حوصلہ دیا جا سکے۔
امریکی قابضین نے افغانستان میں اپنی موجودگی کو دوام دینے اور دنیا بھر میں واحد اسلامی تحریک کو دبانے، ختم کرنے اور بدنام کرنے کے لیے داعشی فتنے کو بے پناہ مالی اور لاجسٹک مدد دی۔ ان کے قیام، تحفظ اور ضروریات پوری کرنے کے لیے اُس وقت کے نام نہاد ’’قومی امنیت‘‘ اور اعلیٰ حکومتی اہلکاروں کو ذمہ داریاں دی گئیں۔ اس بات کے ثبوت کے لیے اُس وقت کی غلام حکومت کے مختلف سطح کے حکام کے اقرار نامے کافی ہیں۔
۴۔ شہادت:
امریکی انٹیلیجنس کے ہاتھوں بنائے گئے اس خونی، درندہ صفت منصوبے ’’داعش‘‘ نے، دوسرے تمام گروہوں سے بڑھ کر، اسلام کے نام پر اسلام اور مسلمانوں کے سروں، اذہان، افکار اور نسلوں کو اپنا شکار بنایا۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہ ہمیشہ دوسروں کے مفاد میں اسلامی تحریکوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپتے رہے ہیں۔
ہمیشہ کی طرح خوارج اور اُن کے جدید شکل ’’داعش‘‘ کا نام آتے ہی دہشت، وحشت اور مسلمانوں کی تکفیر ذہن میں آتی ہے۔ اسی فتنہ کے خاتمے اور اس کے جدید، ترقی پسند، مغربی ساختہ چہروں کو دبانے کے لیے، سیدآباد سے ایک قافلہ ننگرہار کی جانب روانہ ہوا۔ شہید انتظار، جو کہ ایک ماہ پہلے شادی کے بندھن میں بندھے تھے، بھی اس قافلے میں شامل تھے۔
اس سفر کے دوران جب قافلہ ننگرہار کے ضلع شیرزاد کے مرکی خیل علاقے میں پہنچا، تو امریکی ڈرون حملے کا نشانہ بن گیا۔ شہید انتظار اپنے چند ساتھی مجاہدین سمیت شہید ہو گئے۔
نَحْسَبُهُمْ كَذَٰلِكَ وَاللَّهُ حَسِيبُهُمْ