گذشتہ قسط میں ہم نے لکھا کہ خوارج نے اسلام کے دینِ مبین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت ہر کیسے اعتراض اور بغاوت کی تھی، یہاں ہم خوارج کی حقیقت، ان کی بنیاد، تعریف اور عقائد پر بحث کریں گے۔
۱۔ خوارج کی تعریف؛
خوارج لفظ خارج کی جمع ہے جو خروج سے نکلا ہے اور اس کا مطلب ہے نکلنا یا باہر جانا، اصطلاح میں وہ لوگ جو مسلمانوں کے متفقہ اور منتخب امام کے خلاف خروج کرتے ہیں اور بیعت اور اطاعت سے انکار کرتے ہیں، انہیں "خارجی” کہا جاتا ہے۔
خوارج کی بنیاد عبداللہ بن ذوالخویصرہ سے شروع ہوتی ہے، وہ پہلا شخص تھا جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدلت اور تقسیم پر اعتراض کیاتھا، اس کے بعد یہ سلسلہ بڑھا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلافت کے آخری ایام میں خوارج کی تعداد بڑھ گئی اور انہوں نے الزام لگایا کہ حضرت عثمان نے امورِ خلافت میں اپنے رشتہ داروں کو مقرر کیا ہے، اس بنا پر انہوں نے بغاوت کی اور بالآخر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا۔
اس کے بعد اپنے گناہوں کو چھپانے کے لیے، خوارج نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیعت کی، اور اسی دوران حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے، جس کے نتیجے میں جنگ صفین ہوئی اور سینکڑوں مسلمان شہید ہوگئے۔
جنگ صفین میں اہل شام نے جنگ بندی کرنے کے لیے قرآن مجید کے نسخے بلند کیے اور جنگ بندی کی درخواست کی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ بخوبی جانتے تھے کہ خوارج یہ سب اپنی شکست کو چھپانے اور جنگ کے نتائج کو اپنے حق میں بدلنے کے لیے کر رہے ہیں، لیکن خارجی قراء مسلسل حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دھمکیاں دے رہے تھے کہ وہ جنگ بندی کریں؛ آخرکار دونوں طرف سے نمائندے منتخب کیے گئے، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے عمرو بن العاص اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے ابو موسیٰ اشعری کو منتخب کیا گیا۔
ان دونوں حضرات کے درمیان دومة الجندل میں مجلس ہوئی، لیکن صفین سے واپسی کے دوران حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ۱۲,۰۰۰ خوارج الگ ہو گئے اور لا حکم الا اللہ کا نعرہ بلند کیا، اس نعرے کے ساتھ ہی انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کافر قرار دے دیا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں صحابہ کرام کئی بار خوارج کے پاس گئے اور انہیں راہ حق کی دعوت دی، اسی طرح ایک بار حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو بھی ان کی طرف بھیجاگیا لیکن حرقوص بن زہیر نامی ان کے راہنما نے ان سے توہین آمیز سلوک کیا۔
اس کے بعد خوارج نہروان کے علاقے میں جمع ہوگئے، وہاں انہوں نے شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرح وحشتناک کام گناہ سرانجام دیا، انہوں نے صحابی رسول عبداللہ بن خباب بن الارت رضی اللہ عنہ کو مرتد قراردیا اور انہیں ذبح کرڈالا، اس طرح خوارج وہ پہلے لوگ تھے جنہوں نے خنجر کے ذریعے ذبح کی ابتدا کی، ان ظالموں نے عبداللہ بن خباب بن الارت رضی اللہ عنہ کے ذبح اور شہادت پر ہی بس نہ کیا بلکہ انہوں نے ان کی حاملہ بیوی کو بھی ذبح کرڈالا، یہ خوارج کا ایک ایسا وحشتناک گناہ تھا جو قابل معافی نہ تھا۔
اس وقت خوارج کے رہنما اپنے پیروکاروں کو جنت، حقانیت اور کامیابی کی اُمید دلاتے تھے، انہوں نے سچے مسلمانوں کو کافر قرار دیا اور تکفیر اور ارتداد کے آخری حد تک پہنچ گئے، جو بھی مسلمان ان کے منحرف اور باطل عقیدہ کو نہیں مانتا تھا، انہیں مرتد قرار دے کر شہید کیا جاتا۔ حضرت عبد اللہ بن خباب رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی و بچے کی شہادت اور ذبح کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خوارج کے خلاف جنگ کا فیصلہ کیا۔
اسی میدان میں خوارج کے رہنما حرقوص بن زہیر اپنے پیروکاروں سے کہہ رہا تھا کہ "جنت کے لیے تیار ہو جاؤ اور مسلمان دشمنوں سے جنگ میں شہادت حاصل کرو۔”
حالانکہ ان کا طرز عمل وحشت اور بربریت پھیلانا تھا، ان کا مقصد الحاد اور ارتداد کی طرف لے جانا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر مجھے خوارج ملے تو میں انہیں عادیوں کی طرح قتل کروں گا،” یعنی وہ کبھی معاف نہیں کیے جا سکتے۔
شہید شیخ رحیم اللہ حقانی رحمہ اللہ نے فرماتے تھے:
"جس نے خوارج کے ساتھ ادنی سا بھی تعاون کیا، اس کا قتل فرض ہے۔”
کیونکہ وہ اپنے منحرف اور باطل عقائد سے کبھی نہیں پلٹیں گے، اور ان پر رحم کرنا بھی گناہ ہے۔
سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عراق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
"یہاں سے ایک ایسی جماعت اُٹھے گی جو قرآن پڑھیں گے لیکن ان کا پڑھنا حلق سے نیچے نہیں اُترے گا، وہ اسلام سے یوں نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کے بدن کے آر پار ہوجاتاہے۔”