اسلام وہ مبارک دین ہے جو تمام شعبہ ہائے زندگی جیسے سیاست، اقتصاد، تجارت، اخلاق، عبادات اور تہذیب کو جامع ہے.
یہ ایسا طرزِ زندگی ہے جس کا منبع توحید الٰہی ہے، ایسا قانون جو تمام انسانیت کے مسائل کا حل پیش کرتا ہے جو ہدایت اور فلاح و کامرانی کا واحد مرجع ہے۔
یہ دین اسلام کا طرہ امتیاز ہے کہ وہ مسلمان معاشرے کو خیرالقرون سے جوڑنے کی سعی کرتا ہے اور ہر زمانے کی مشکلات و مسائل کا حل اپنے احکامات میں سموئے ہوئے ہے۔
تاریخ اسلام میں جب بھی ہمیں مادی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ہم اس کے بعد پہلے سے بہتر اور زبردست قوت کے طور پر ابھرے ہیں، ہم نے شکست کی تلخی اور عروج کی مٹھاس کا تجربہ کر رکھا ہے اور یہ سلسلہ تاقیامت یوں ہی جاری و ساری رہے گا۔
رسول الله صلی الله علیه وسلم تن تنہا دین اسلام کی دعوت و تبلیغ میں صرف اور صرف اللہ کی مدد ونصرت پر بھروسہ کرتے ہوئے اس میدان میں اترے، اس راستے میں مشکلات و مصائب آپ علیہ السلام کے ارادوں کو متزلزل نہ کرسکے اور یو ں بالآخر ایسے نظام کی بنیاد رکھی جس کی مثل پوری دنیا پیش کرنے سے قاصر ہے۔
پیغمبر مہربان صلی الله علیه وسلم بیک وقت امام مسجد، مجاہدین کے امیر، صحابہ کرام کے استاد اور اللہ تعالی کے رسول تھے، ایک ایسی قرآنی نسل تیار کر گئے جنہوں نے تاریخ کا نقشہ بدل کر رکھ دیا، پوری دنیا کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر اسلام کے نور سے منور کردیا!
رسول الله صلی الله علیه و سلم کی رحلت کے بعد عرب قبائل ارتداد کی راہ پر چل پڑے سوائے مکہ مکرمہ، مدینہ منورۃ، طائف اور بحرین کے تمام عرب دین اسلام سے پھرگئے، ان کا ارتداد یہ تھا کہ وہ حکومت کو زکوۃ ادا نہیں کریں گے۔
لوگ جماعت در جماعت دائرہ اسلام سے نکلنے لگے، بعضوں نے پیغمبری کا دعوی کیا، عالم کفر نے جزیرہ عرب کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ یہ ایسی صورتحال تھی کی بعض صحابہ کرام بھی ناامید ہونے لگے، حالات کو دیکھتے تو رنج و الم میں ڈوب جاتے، جنگوں میں مالی وجانی نقصانات سے پریشان تھے۔ یہ صورتحال آج سے چند گنا دگرگوں تھی۔
بعض صحابہ کرام نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے خلیفۂ رسول اللہ! ہم تمام عرب سے جنگ نہیں کرسکتے، آپ اپنے گھرمیں بیٹھے عبادت میں مصروف رہیں، ان حالات سے سروکار نہ رکھیں۔
سب کو یقین تھا کہ ان حالات کا مقابلہ ناممکن ہے، چہار سو مایوسی کی فضا پھیلی ہوئی تھی، ہر شخص اصلاح احوال سے مایوس ہوچکا تھا۔
ان دگرگوں حالات کے دوران صدیق اکبررضی الله عنه نے ایسا فیصلہ صادر فرمایا جس نے تاریخ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، ایک ایسا شجاعت و بہادری کا اعلان کیا، اگر آج بھی اس پر لبیک کہا جائے، اس کی تعمیل کی جائے تو ناممکن نہیں کہ سارا عالم اس کے سامنے سرنگوں ہوجائے۔
صدیق اکبررضی الله عنه نے فرمایا: کیا میرے ہوتے ہوئے دین میں کمی کی جائے گی؟ میں اکیلا ہی ایسے لوگوں سے جنگ کروں گا یہاں تک میرا سر تن سے جدا کردیا جائے لیکن دین میں کمی قبول نہیں کرسکتا۔